عید کے دن جمعہ کی رخصت؟

سوال: جمعہ کے دن عید آجائے تو کیا جمعہ ہو جاتا ہے اور  نہ پڑھنے کی رخصت مل جاتی ہے؟

جواب:جمعہ کے دن عید ہونے سے جمعہ ساقط و معاف نہیں ہوتا بلکہ جمعہ اپنی شرائط کے ساتھ جس پر فرض ہو فرض رہتا ہے نبی کریم صلی اللہ ولیہ وسلم کےے زمانہ میں جب جمعہ کے دن عید ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم عید کی جماعت بھی کروائی اور جمعہ کی نماز بھی کروائی۔

اعتراض: بدمذہبوں کے نزدیک اگرجمعہ کےدن عیدہو جائےتوصرف عیدہی کافی ہے،جمعہ چھوڑنے کی رخصت ہے،اس پر درج ذیل  ابوداؤد کی حدیث پیش کی جاتی ہے؛”صلی العید،ثم رخص فی الجمعۃ”ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید پڑھائی پھر جمعہ کی رخصت عطا فرمائی۔               (سنن ابی داؤد، ،ج1،ص281،ح1070،)

جواب:مذکورہ  حدیث سے جمعہ کی رخصت کااستدلال کرناباطل ومردود ہے کیونکہ اس حدیث میں جمعہ کی معافی تمام افرادکے لیے نہیں ،بلکہ محض ان لوگوں کے لئے  تھی ،جو مدینہ منورۃ کے شہر ی نہ تھے بلکہ مدینہ منورۃ کے اطراف یعنی گاؤں  وغیرہ سے نماز ِ عیداداکرنے کےلئے آئے تھے جیسا کہ حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ رخصت  گاؤں والوں کے لئے ہے ۔

 سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب عید جمعہ کے دن ہوئی تو آپ نے ارشادفرمایا: فرمایاکہ جمعہ وعیددونوں ایک دن میں اکٹھے ہوئے ہیں مجھے یہ بات پسندہے کہ جوعوالی ِمدینہ میں سے ہیں وہ یہیں رکیں تاکہ جمعہ میں حاضرہوسکیں جس سے بن پڑےاسے رکناچاہیے لیکن جونہ رکناچاہے ،واپس جاناچاہے تواسے بھی میری طرف سے اجازت ہے۔

عوالی یعنی غیر شہری افراد کو رخصت دی کیونکہ  جمعہ تو صرف شہری پر فرض ہے ،دیہاتی پر فرض  نہیں اور محدثین نے اس حدیث کی شرح میں یہی لکھا ہے کہ یہ رخصت دیہاتی کے لئے تھی ،شہری کے لئے نہیں ۔

اور عید کے دن جمعہ ساقط نہ ہونے  کی وجہ یہ بھی ہے کہ عید اور جمعہ الگ الگ عبادت ہے ،ایک دوسرے کے خلاف نہیں ،اور اصول ہے  کہ جب دو  عبادتیں ایک دوسرے کے معارض نہ ہوں تو ایک عبادت سے دوسری عبادت ساقط نہیں ہواکرتی اور مزید یہ کہ عید کی نماز سنت ہے اور جمعہ فرض ہے اور سنت کی وجہ سے فرض ساقط نہیں ہوا کرتا۔

 

دلائل درج ذیل ہیں :

صحیح مسلم: ۔”قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في العيدين، وفي الجمعة بسبح اسم ربك الأعلى، وهل أتاك حديث الغاشية» ، قال: «وإذا اجتمع العيد والجمعة، في يوم واحد، يقرأ بهما أيضا في الصلاتين”

         (صحیح مسلم، ،ج2،ص598،حدیث878،)

بخاری شریف :قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ:ثُمَّ شَہِدْتُ العِیدَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَکَانَ ذَلِکَ یَوْمَ الجُمُعَۃِ، فَصَلَّی قَبْلَ الخُطْبَۃِ، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ ہَذَا یَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِیہِ عِیدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْتَظِرَ الجُمُعَۃَ مِنْ أَہْلِ العَوَالِی فَلْیَنْتَظِرْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْجِعَ فَقَدْ أَذِنْتُ لَہُ” (صحیح البخاری، جلد07،صفحہ103،حدیث:5571،)

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار:” المرخصون أهل العوالي الذي منازلهم خارجة عن المدينة ممن ليست لهم جمعة لأنهم في غير مصر”(المعتصر من المختصر من مشكل الآثار،ج1،ص90،)

شرح مشکل الاثار  :۔” لَا جُمُعَۃَ عَلَیْھم:لِأَنَّھُمْ لَیْسُوا بِمِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَار”ترجمہ:ان کورخصت دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہری نہیں او رجوشہری نہ ہوان پرجمعہ فرض نہیں ۔(شرح مشکل الاثار، ،حدیث:1155،جلد3،صفحہ190،)

شرح ابی داؤدللعینی :۔”ومقتضی ھذا: الاکتفاء ُ بالعید فی ھذا الیوم وسقوط فَرضیّۃ الجمعۃ؛ وھو مذھب عطاء ، ولم یقُلْ بہ أحدٌ من الجُمھور؛ لأن الفَرضَ لا یَسْقط بالسُّنًۃ”(شرح ابی داؤدللعینی، جلد04،صفحہ401)

            رد المحتار:”مذهبنا فلزوم كل منهما. قال في الهداية ناقلا عن الجامع الصغير: عيدان اجتمعا في يوم واحد فالأول سنة والثاني فريضة ولا يترك واحد منهما اهـ… قال ابن عبد البر سقوط الجمعة بالعيد مهجور. وعن علي أن ذلك في أهل البادية ومن لا تجب عليهم الجمعة” (رد المحتار،ج3،ص51)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے