سوال: اگر کسی کو ایسے وسوسے آ رہے ہو ں جن کے بارے میں اس کو پتہ نہیں کہ یہ کفریہ ہیں یا نہیں ، تو کیا حکم ہے؟
جواب: ذہن میں کفریہ وساوس آنےسے ایمان نہیں جاتا البتہ ان وسوسوں کو براسمجھنا ہی عین ایمان ہے ،وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہئے،شیطان ایسے وسوسے مسلمان کے دل میں ڈالتا ہے تاکہ وہ اپنے ایمان سے مایوس ہو جائے، لہٰذا ان وسوسوں کی طرف ہرگز توجہ نہ کی جائے۔
مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے:’’ عن أبى هريرة قال جاء ناس من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم فسألوه إنا نجد فى أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال:’’ وقد وجدتموه‘‘. قالوا نعم. قال :’’ ذاك صريح الإيمان ‘‘یعنی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے بعض حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر عرض کی: ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کا بھی اسے بیان کرنا بہت بڑی بات ہے(اس کے برا ہونے کی وجہ سے) ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ ‘‘صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔‘‘(صحیح مسلم مع شرحہ الدیباج ،جلد1، صفحہ146 ،مطبوعہ: دار ابن عفان )
ہاں !جب کسی کو وسوسے آئیں تووہ تعوذ اور لاحول پڑھ کراپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھو ،تھو کر دے ۔
وسوسے سے بچنے کی تدبیریں بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”(1) رجوع الی اللہ (اللہ عزوجل کی بارگاہ کی طرف رجوع کرنا )(2) اَعُوْذُ بِاللہِ (3) وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ و (4) سورہ ناس، (5) اٰمَنْتُ بِاللہ وَ رَسُوْلِہٖ (6) ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٍ، (7) سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْخَلَّاقِ اِنْ یَّشَأ یُذْھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ لا وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْزٍ “ پڑھنا کہ وسوسہ جڑ سے کٹ جائے گا اور (8) وسوسہ کا بالکل خیال نہ کرنابلکہ اس کے خلاف کرنا بھی دافعِ وسوسہ ہے۔“(بہار شریعت ، جلد 01 ، صفحہ 303 ، مکتبۃ المدینہ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم