سوال: ایسا بکرا یا بیل جس کا پیدائشی ایک خصیہ نہ ہو ، اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟
جواب:ایسے بکرے یا بیل کی قربانی جائز ہے کہ یہ عیب نہیں ہے،عیب وہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے جانور کی قیمت کم ہو جائےاور خصیہ کم ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت کم نہیں ہوتی، بلکہ وہ جانور جس کے خصیے کوٹ دیے گئے ہوں یا خصیے اور ذکر کاٹ کر بالکل الگ کر دیے گئے ہوں اس کی بھی قربانی جائز، بلکہ بہترہے ۔
ہدایہ میں ہے:
’’کل ما اوجب نقصان الثمن فی عادۃ التجار فھو عیب‘‘
ہر وہ چیز جو تاجروں کی عادت میں ثمن میں کمی کا سبب بنے وہ عیب ہے۔
(ہدایہ، جلد3 ،ص42 ،مطبوعہ لاہور)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’و یجوز المجبوب العاجزعن الجماع‘‘
اوراس جانورکی قربانی جائزہے جس کے خصیے اورآلہ تناسل کاٹ دیے گئے ہوں،وہ جماع سے عاجزہو۔
(فتاوی عالمگیری، جلد5 ،ص367 ،کراچی)
فتاوی رضویہ میں ایک سوال ہواکہ بکرے دوطرح خصی کیے جاتے ہیں،ایک یہ کہ رگیں کوٹ دی جائیں، اس میں کوئی عضو کم نہیں ہوتا،دوسرے یہ کہ آلت تراش کر پھینک دی جاتی ہے، اس صورت میں ایک عضو کم ہوگیا،آیاایسے خصی کی بھی قربانی جائز ہے یانہیں؟توآپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’جائزہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا، بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی کا گوشت بہ نسبت فحل کے زیادہ اچھا ہوتا ہے فی الھندیۃ عن الخلاصۃ یجوز المجبوب العاجز عن الجماع(ہندیہ میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے)۔‘‘
(فتاوی رضویہ، ج 20،ص458)
بہارِ شریعت میں ہے:
’’خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اورعضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔‘‘
(بہار شریعت، جلد 3،حصہ15، ص340)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)