سوال: ہم جو اپنی بہن بیٹی کو جہیز کاسامان جیسے برتن، فرنیچر دیتے ہیں، کیا اس سامان پر زکوۃ ہو گی؟
جواب: جہیز کے سامان جیسے برتن، فرنیچر پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔
تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ ثمن یعنی سونے ، چاندی (تمام ممالک کی کرنسیاں اور پرائز بانڈز بھی اسی میں شامل ہیں) اور سائمہ (یعنی ایسے اونٹ، گائے، بکری وغیرہ جو سال کا اکثر حصہ مفت کی چراگاہ سے چر کر گزارا کرتے ہوں اور ان سے مقصود صرف دودھ اور بچے لینا یا فربہ کرنا ہو، ان) جانوروں کے علاوہ کسی بھی چیزپر زکوٰۃ اُسی صورت میں فرض ہوتی ہے کہ جب وہ مالِ تجارت ہو اور مالِ تجارت کی عمومی تعریف یہ ہے کہ : مال تجارت وہ چیز ہے ،جسے بیچنے کی نیت سے خریدا جائے، اور اب بھی اس میں بیچنے کی نیت برقرار ہو۔ اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہ ہو،اگرچہ بعد میں بیچنے کی نیت کر لی جائے، وہ مالِ تجارت نہیں کہلائے گا۔ جبکہ جہیز کا سامان بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا جاتا، لہذا اگرچہ یہ حاجت اصلیہ سے زائد ہی ہو، اس پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔
البتہ حاجتِ اصلیہ سے زائد ہونے کی صورت میں اسے قربانی وصدقہ فطروغیرہ کے نصاب میں شامل کیا جائے گااور دیگر شرائط کی موجودگی میں اس سامان کے مالک مرد/ عورت پر قربانی و صدقہ فطر وغیرہ واجب ہو جائیں گے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم