غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اسلام قبول کرنے کی اہمیت و فضیلت

آخر درست کیا ہے؟

اسلام قبول کرنے کی اہمیت و فضیلت

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ نومبر 2021

دینِ اسلام ، خدا کا پسندیدہ دین ہے ، اِسے قبول کئے بغیر کوئی نیکی اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں۔ ایمان و اسلام کے بغیر مرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا جبکہ مؤمن ہمیشہ جنّت میں رہے گا ، اگرچہ بعض کو گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھی اٹھانی پڑے۔ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف بلانا ، تمام نبیوں ، رسولوں کی سنّت اور اُمَّتِ مسلمہ کے فرائض میں سے ہے۔ انبیاء  علیہمُ السّلام  کو بھیجنے کا بنیادی ترین مقصد یہی تھا کہ وہ لوگوں کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کی روشنی میں داخِل کریں۔

قبولِ اسلام کےلئے دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کافی ہے ، اِس کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ، بلکہ اگر نابالغ سمجھدار اسلام قبول کرے تو اُس کا اسلام معتبر ہے۔ نبی اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کو سات سال کی عمر میں دعوتِ اسلام دی اور اُنہیں کلمہ پڑھایا۔ حضرت علی کا بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانا ، ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہے ، لیکن کسی مسلمان نے کبھی تصور تک نہیں کیا ہوگا کہ مَعاذَاللہ حضرت علی کا بچپن کا اسلام معتبر نہیں اور یہ کوئی جبر تھا۔ العیاذ باللہ!

معلوم ہوا کہ نابالغ کا قبولِ اسلام معتبر اور اُسے اسلام کی دعوت دینا ، کلمہ پڑھانا نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ثابت ہے ، البتہ جبراً کافر کو مسلمان بنانے کی اجازت نہیں۔

اسلام قبول کروانا اس قدر اہم معاملہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم خواہ نابالغ سمجھدار ہو یا بالغ ہو ، قبولِ اسلام کی خواہش کا اظہار کرے تو اُسے فوراً بلاتأمُّل کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنا فرض ہے ، اس کی بجائے اُسے مسلمان کرنے میں تاخیر کرنا ، قبولیتِ اسلام کے حوالے سے اُسے غور و فکر کا مشورہ دینا وغیرہا سخت حرام ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فرض نماز پڑھ رہا ہو اور اسے کوئی کافر آکر اسلام قبول کروانے کا کہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی نماز توڑ کر اسے کلمہ پڑھائے۔   (الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ ، الصنف الخامس ، 2 / 459)

کسی کے قبولِ اسلام کی درخواست پر یہ کہنا کہ ابھی اسلام قبول نہ کرو ، بلکہ پہلے جاکر غور وفکر کرو ، پھر دیکھیں گے ، یہ مشورہ و تجویز اُس بندے پر سَرَاسر ظلم ہے ، کیونکہ اگر وہ اِسی وقفے کے زمانے میں مرگیا تو کافر مرا اور اس کے کفر پر مرنے کا ذمہ دار یہی تاخیر کرانے والا ہے ، کیونکہ یہ تاخیر کرانے والا گویا اسے یہ کہہ رہا ہے کہ تم ابھی کافر ہی رہو ، بتوں کو پوجتے رہو ، شرک کرتے رہو مَعاذَاللہ ثُمَّ مَعاذَاللہ! کیا یہ تاخیر کرانے والا اُتنی دیر اُس شخص کے کفر پر رضا مندنہیں اور یاد رکھیں کہ کسی کے کفر پر راضی ہونا بھی اس کے برابر کا جرم ہے۔

اگر اسلام قبول نہیں کیا تو کوئی نیکی قبول نہیں :

چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵))ترجمۂ کنزالعرفان : اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اُس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ (پ3 ، آل عمرٰن : 85)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مسلم شریف میں ہے : حضرت عائشہ  رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے ، آپ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ابنِ جُدْعان (نامی شخص)زمانۂ جاہلیت میں صلہ رحمی کرنے والا ، مساکین کو کھلانے پلانے والا تھا ، تو کیا یہ اچھے کام اُسے نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا : یہ چیزیں اُسے نفع نہیں دیں گی ، کیونکہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت  فرما۔ (یعنی ایمان نہیں لایا تھا۔ )(مسلم ، 1 / 196)

اس حدیث کے تحت امام نووی نے قاضی عیاض  رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول یہ نقل فرمایا ہے کہ اِس بات پر اجماع منعقد ہے کہ کافروں کو اُن کے عمل کسی طرح کا کوئی نفع نہیں دیں گے۔ (المنهاج مع المسلم ، 3 / 8)

جو ایمان نہ لایا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا : اللہ پاک فرماتا ہے : (وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۳۹) )ترجمۂ کنزُالعرفان : اور وہ جو کفر کریں گےاور میری آیتوں کو جھٹلائیں گے ، وہ دوزخ والے ہوں گے ، وہ ہمیشہ اِس میں رہیں گے۔ (پ1 ، البقرۃ : 39)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

امام ابو منصور عبدالقاہر بغدادی  رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : اہلِ سنّت اور اُمّت کے بہترین لوگوں کا جنت وجہنم کی ہمیشگی ، اہلِ جنّت کی ہمیشگی اور کافروں کے ہمیشہ حالتِ عذاب میں رہنے پر اجماع ہے۔ (اصول الدین ، ص 263)

اگر کوئی مومن گناہ کے سبب جہنم میں چلا بھی گیا تو بالآخر جنت میں ہی جائے گا :

امام شرف الدین نَوَوِی  رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : اہلِ حق ، اہلِ سنّت کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص حالتِ ایمان پر مرا ، وہ قطعاً جنّت میں داخل ہوگا۔ ۔ ۔ (یا تو بے حساب ، یا حساب کے بعد بِلا عذاب یا کچھ عذاب پاکر بالآخر جنّت میں جائے گا) بہر حال جو بھی ایمان پر مرا وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اگرچہ اس نے گناہ کئے ہوں جیسے کوئی بھی کافر کبھی بھی جنّت میں داخل نہیں ہوسکتا ، اگرچہ بظاہر اس نے جتنی بھی نیکیاں کی ہوں۔ (المنهاج مع المسلم ، 1 / 217)

کسی کو کلمہ پڑھا کر راہِ ہدایت پر لانا عظیم ثواب کا باعث ہے :

نبی اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مولاعلی شیر خدا  رضی اللہُ عنہ  سے فرمایا : انہیں (اہلِ خیبرکو)  اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتلاؤ کہ جو اللہ کے حقوق اُن پر لازم ہیں۔ اللہ کی قسم! (اے علی!) اگر تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آجائے تو تیرے لئے یہ (مالِ غنیمت) کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (بخاری ، 5 / 134)

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے : اگر اللہ پاک تیرے ذریعے کسی کو ہدایت دیدے تو یہ تیرے لئے ہر اُس چیز سے بہترہے ، جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ (پوری دنیا کے مال و دولت سے بہتر ہے۔ )(المعجم الکبیر للطبرانی ، 1 / 315)

دعوتِ اسلام ، انبیاء کے بنیادی فرائض میں سے ہے :

تمام انبیاء ورسل اسلام کی ہی دعوت دیتے رہے ، چنانچہ حضرت ابراہیم  علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام  کے بارے میں فرمایا : (وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ-یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ(۱۳۲) )ترجمۂ کنزُالعرفان : اورابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اسی دین کی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو!بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیاہے توتم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ (پ1 ، البقرۃ : 132)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضرت نوح  علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کے متعلق ارشاد ہوا : جب ان سے ان کے ہم قوم نوح نے فرمایا : کیا تم ڈرتے نہیں؟ بیشک میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (پ19 ، نوح : 106تا108)

ہمزاد کی حقیقت

اگر کوئی اسلام لائے تو اُس کے اسلام پر شک کرنا ممنوع ہے :

چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے : (وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ-)اور جو تمہیں سلام کرے ، اُسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں۔ (پ5 ، النسآء : 94)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسلام قبول کرنے والے کے اسلام پر شک کی ممانعت پر یہ حدیث بھی عظیم دلیل ہے ، مسلم شریف میں ہے : حضرت اسامہ بن زید  رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں : (ایک جنگ کے دوران) میں نے ایک (کافر)آدمی پر قابو پا لیا ، تو اس نے “ لَا الٰه اِلّا اللہ “ کہہ دیا ، لیکن میں نے اسے نیزہ مار دیا ، اس بات سے میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کیا ، اس پر آپ نے فرمایا : “ کیا اس نے “ لا الٰه الا اللہ “ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟ “ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! اس نے اسلحے کے ڈر سے کلمہ پڑھا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : “ تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ، تا کہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دل سے) کہا ہے یا نہیں۔ “ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ (کاش) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔ (مسلم ، 1 / 96)

امام بخاری  رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی معروف کتاب “ صحیح بخاری “ میں باقاعدہ یہ باب باندھا کہ “ بچوں پر اسلام کیسے پیش کیا جائے گا “ ، پھر اس پر ابن صیاد نامی ایک بچے کی روایت نقل کی ہے۔ (بخاری ، 4 / 70)

اِس حدیث كے تحت علامہ عینی  رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اِس فرمان “ کیاتو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ “ میں نابالغ بچّے پر اسلام کی دعوت پیش کرنے کا واضح ثبوت موجود ہے اور اِس دعوت دینے سے یہ بھی سمجھ آ رہا ہے کہ اگر بچے کا اسلام لانا صحیح اور معتبر نہ ہوتا تو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی ابنِ صیاد ، جو کہ نابالغ تھا ، اُس پر اسلام پیش نہ کرتے۔ (عمدۃ القاری ، 8 / 168)

اِن کے علاوہ حضرت زبیر  رضی اللہُ عنہ بھی آٹھ سال کی عمر میں ایمان لائے۔ یونہی ایک موقع پر نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک یہودی نابالغ بچّے کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور فوراً انتقال کر گئے ، تو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لئے کہ جس نے اُسے میرے سبب آگ سے بچا لیا۔

ہمارے دین کا حکم تو یہ ہے کہ اگر سمجھدار نابالغ بچہ اسلام لا کر دوبارہ اسلام سے پھرے تو اُسے اسلام لانے پر مجبور کیا جائے گا ، نہ یہ کہ مَعاذَاللہ اسلام قبول کرنے والے کو کفر کی طرف پھیرا جائے چنانچہ مجمع الانھرمیں ہے : سمجھدار نابالغ مرتد ہو جائے تو اُسے اسلام لانے پر مجبور کیا جائے گا ، کہ اِسلام لانے میں اُس کا فائدہ ہے۔ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، 2 / 500)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں : “ جو کافر تلقینِ اسلام چاہے اسے تلقین فرض ہے اور اس میں دیر لگانا اشد کبیرہ بلکہ اس میں تاخیر کو علماء نے کفر لکھا۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 21 / 172)

نکاح کی خواہش سے قبولِ اسلام جبر نہیں بلکہ معتبر ہے :

اسلام اقرار باللسان اور تصدیقِ قلبی کا نام ہے اور تصدیقِ قلبی ایک اختیاری چیز ہے ، لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم مسلمان لڑکی سے شادی کی خواہش میں یا کسی مسلمان کی جانب سے مالی اِمداد ہونے یا اُس کی خوش اخلاقی سے متأثر ہو کر بذاتِ خود ، بلا جبر و اکراہ دل سے اسلامی عقائد کی تصدیق کر کے مسلمان ہو جاتا اور اسلامی معاملات بجا لاتا ہے ، تو وہ بلاشبہ مؤمن اور مسلمان ہے ، اِسے جبری مسلمان کرنا ہر گز نہیں کہا جا سکتا ، یہ ایک مُحَرِّک ہے اور ہر کام کا کوئی نہ کوئی مُحَرِّک ہوتا ہے اور نکاح کا مُحَرِّک ہزاروں جگہ پایا جاتا ہے لیکن کوئی اَحْمَق یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ جبر ہے ، لہٰذا نکاح کی خواہش میں کسی لڑکے یا لڑکی نے جو اسلام قبول کیا وہ معتبر ہے ، کیونکہ اُس نے ہوش و حواس میں اپنے اختیار سے اسلام قبول کیا ہے ، اورہم پر لازم ہے کہ اُس کے متعلق بدگمانی کرنے سے بچیں کہ اُس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا ، بلکہ ضروری ہے کہ اُسے مسلمان سمجھتے ہوئے اُس سے مسلمانوں والا ہی برتاؤ کریں ، چنانچہ حضرت اُمِّ سُلیم  رضی اللہُ عنہا کا حضرت ابو طلحہ  رضی اللہُ عنہ سے نکاح ایسے ہی ہوا تھا۔ سنن نسائی میں صحیح سند کے ساتھ ہے : حضرت انس  رضی اللہُ عنہ  سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ  رضی اللہُ عنہ  نے حضرت اُمِّ سلیم  رضی اللہُ عنہا  سے نکاح کیا تو ان دونوں کے درمیان (ابوطلحہ کا) اسلام لانا ہی حق مہر قرار پایا۔ (دراصل) اُمِّ سلیم  رضی اللہُ عنہا  حضرت ابوطلحہ  رضی اللہُ عنہ  سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت ابوطلحہ  رضی اللہُ عنہ  نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگیں : میں تو مسلمان ہوچکی ہوں اگر آپ بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں آپ سے نکاح کرلوں گی۔ تب وہ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہی (ان کا مسلمان ہونا ہی) ان دونوں کے درمیان حق مہر مقرر ہوا۔ (نسائی ، 6 / 114)

بخاری شریف میں ہے : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مجھے کسی کے دل ٹٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ (بخاری ، 5 / 163)

اللہ پاک ہم سب کو دینِ اسلام پر عمل کرنے ، اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ عافیت کے ساتھ ایمان پر ہی فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(دعوت اسلامی)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت فیضانِ مدینہ ، کراچی

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے