آخر درست کیا؟
اسلام عروج یا زوال ( دوسری اور آخری قسط )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2022
( گزشتہ سے پیوستہ )
اسلام کی طاقت ، قوتِ بقا اور ناقابلِ زوال ہونے پر دورِ حاضر کی ایک زندہ دلیل یہ ہے کہ اِسلام کو مٹانے کےلیے دنیا میں نِت نئے حربے استعمال کیے جار ہے ہیں۔ اسلامی مَمالک ، اسلامی تعلیمات ، اسلامی حسنِ معاشرت اور اسلامی اَقدار کو ختم یا انتہائی کمزور کرنےکے لیے ہر طرح کی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ عالَمی حالات اور بالخصوص مغربی سازشی عناصر اور تھنک ٹینکس ( Think tanks ) پر عمیق نظر رکھنے والا بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام سازشیں اور کوششیں ادیانِ عالم میں صرف اور صرف اسلام کے خلاف ہو رہی ہیں ، کسی بھی دوسرے دین و مذہب کے خلاف ایسی سازشیں اور کاروائیاں نہیں ہو رہیں ، عالَمی طاقتیں دینِ اسلام کے خلاف انتہائی شاطرانہ منصوبے بناتی ہیں ، اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں ، جبکہ دینِ اسلام کے مقابلے میں دیگر مذاہب کے متعلق خاموش ہیں یا بعض مذاہب کے تحفظ اور کچھ کی ترویج کے لئے ہر طرح کا تعاون مہیا کرتی ہیں ، مختلف انداز میں اُن کی اِمداد کرنا سب پر عِیاں ہے ، مگر اِن تمام تر حربوں کے باوجود اگر مذہبی تبدیلی کا تناسب معلوم کیا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ اتنی مخالفتوں اور منافرتوں کے باوجود اَلحمدُ لِلّٰہ سب سے زیادہ تیزی سے قبول کیا جانے والا دین ” دینِ اسلام “ ہے اور اس معاملے میں دینِ اسلام بقیہ تمام اَدیان پر فائق ہے۔ لہٰذا اِس قدر کھلی حقیقت کے بعد یہ سمجھنا کہ عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی پسپا کر دیا جائے گا ، ایک ” کم فہمی “ کے سوا کچھ نہیں۔
” اسلام پسپا نہ ہوگا “ کے پیچھے عالمِ اسباب کاسلسلہ
ہمارا دعویٰ ” اسلام پسپا نہ ہوگا “ کے پیچھے عالمِ اسباب کا ایک خوب صورت اور جاندار سلسلہ بھی ہےاور وہ یہ کہ میدانِ جنگ میں ہمیشہ شکست کا سامنا تب ہوتا ہے ، جب ہتھیار کُند اور سپاہی بزدل ہوں ، نیز قیادت جاں سوز اور نگاہ بلند نہ رکھتی ہو۔ جہاں یہ تینوں چیزیں ہوں گی ، وہاں فتح ایک وہم جبکہ شکست ایک یقینی حقیقت ہوتی ہے لیکن اِس کے برعکس جب ہتھیار مضبوط ، سپاہی جان نثار ، قیادت جاں سوز و بلند نظر ہو ، توفتح و نصرت اور غلبہ ہی مقدر ہوتا ہے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ اہلِ اسلام کی طاقت قرآن اور ذاتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔ اِسی سے وہ ہمت اور حوصلہ ملتا ہے جس سے مسلمانوں کے قدموں کو ثَبات و استقامت ملتی اور ایوانِ کفر میں کھلبلی مچتی ہے۔ اہلِ اسلام کی یہ طاقت قرآن سے ہے جس کا محافِظ خدا ہے ، چنانچہ فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( ۹ ) ) ترجمہ : بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ( پ14 ، الحجر : 09 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور مسلمانوں کی طاقت ان کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے پناہ عشق و محبت اور آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایمان افروز فرامین اور اعلیٰ و ارفع کردار سے ہے جو آج بھی مسلمانوں کے پاس اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ قرآن و سنت و سیرت سے مؤمن کو وہ حوصلہ اور جذبہ ملتا ہے جس کی بنیاد پر اگر ہزاروں گردنیں بھی کٹوانی ہوں تومسلمان دریغ نہیں کرتے بلکہ اِسے اپنی معراج اور دین کی خاطر ایک اَدنیٰ ہدیہ محسوس کرتے ہیں۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
مسلمانوں کی قوت و طاقت کے سرچشموں کے مقابلے میں دوسری طرف عیسائیت یا دیگر ادیان کی پسپائی کا جائزہ لیں تو بنیادی وجہ یہ سامنے آئے گی کہ غیر سماوی مذاہب تو ویسے ہی توہمات یا چند شخصیات کے اسیر ہیں جبکہ آسمانی مذاہب والوں کے پاس بھی اصل خدائی تعلیمات موجود نہیں ہیں ، لہٰذا جب علم و عقل و حقائق پر مبنی اور ربانی ہدایات سے کامل روشنی لینے والی تعلیمات ہی ان کے پاس نہیں ، تو سوائے کسی وقتی جوش یا تعصب کےوہ ہمت و حوصلہ کہاں سے پیدا ہوگا جس کی بنیاد ہی حق پرستی ہے۔
مزید یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں میں مفاد پرستی کا غلبہ رہا اور ان میں ایسی جانباز ، جاں فروش اور باہمت شخصیات کھڑی نہ ہوسکیں جو اپنی جان کی قیمت پر اپنے دین کا دفاع کرتیں بلکہ وہ مادہ پرستی سے سمجھوتا کرتے گئے اور بتدریج پسپائی کی طرف جاتے جاتے بالآخر مغلوب ہو گئےجبکہ اِس کے مقابِل فرزندانِ اسلام کی شان یہ ہے کہ اگر کسی حکمران یا باطل طاقت نے اپنے ہزار حربوں سے اسلامی عقائد و تعلیمات مٹانے میں تحریف کی کوشش کی تو مسلمانوں میں عظیم شخصیات نے تحفظِ دین کے لئے لازوال کردار ادا کیا جیسے محافِظِ عظمتِ قرآن ، امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ جیسے پینسٹھ سال کے معمر بزرگ کے ناتواں جسم پر روزانہ کوڑوں کی برسات کی گئی مگر ان کی روحانی طاقت ، ایمانی جذبہ کی قوت نے انہیں باطل کے مقابلے میں کھڑا رکھا اور کامیابی سے ہم کنار کیا اور کوڑے کھا کر بھی اسلام کے بطلِ جلیل کی یہی صدائے حق رہی کہ قرآن خدا کا کلام ہے ، مخلوق نہیں۔ اِسی طرح تاجدارِ سرہند حضرت سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہ علیہ کے زمانہ میں دینِ اسلام کے خلاف بدترین سازشیں ہوئی ، حکومتی سطح پر اسلام کے خلاف پابندیاں لگی ، دینِ اکبری کا فتنہ پیدا ہوا مگر مجدد الف ثانی علیہ الرَّحمہ کی ربانی پکار اور ایمانی للکار نے اس فتنے کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔ ایسی عالی ہمت اور ذی شان ہستیاں اور ان کے سچے پیروکار ہر زمانے میں رہے اور آج بھی موجود ہیں۔ یہ ہستیاں قلعۂ اسلام کی ایسی فولادی فصیلیں ہیں جنہیں پار کرنا ، توڑنا یا اِس میں نقب زنی کرنا کسی طرح ممکن نہیں ، یہ خدا کے خاص اور چنیدہ بندے ہوتے ہیں جن سے خدا حفاظتِ اسلام کا کام لیتا ہے۔ یہ اپنے علم ، عمل ، قلم ، کردار یا زورِ بازو سے ہر طرح اسلام کا دفاع کرتےرہتے ہیں ، یہی وہ خاصانِ خدا ہیں جن کے متعلق کافروں کی ناکام تمنا رہتی ہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو
آہُو کو مَرْغ زَارِ خُتن سے نکال دو
الغرض! جب تک یہ جاں نثارانِ اسلام باقی اور قرآن و حدیث کا سرمایہ موجود ہے ، اُس وقت تک اسلام ہر گز پسپا نہ ہوگا اور ایسے اہلِ ایمان سے خدا کا وعدہ ہے : (وَ كَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ) ترجمہ : اور مسلمانوں کی مدد کرنا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔ ( پ21 ، الروم : 47 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس وعدۂ خداوندی کی صداقت پر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان سچے مؤمن بنے ، حمایتِ خدا اُن کے ساتھ ہوئی ، جب کبھی عارضی پسپائی کا سامنا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان میں سے ہی کچھ لوگ منتخب فرمائے اور اُن کی برکت سے دوبارہ اسلام کو عروج ملا بلکہ یہ بھی ہوا کہ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
دورِ حاضر میں اسلام کی ترقی کا ایک دلکش منظر
موجودہ حالات میں اگرچہ بعض پہلؤوں سے مسلمان کمزور ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے امور ایمان تازہ کرنے والے ہیں مثلاً غور کریں تو واضح ہوگا کہ شدید مغربی یلغار کے باوجود پوری دنیا میں مسجدوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، مدارِس اسلامیہ کی رونق بڑھ رہی ہے ، عام مسلمانوں کا پہلے سے زیادہ دین کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے ، شریعت کی پابندی اورحلال و حرام کی فکر کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اور اسی وجہ سے اسلامی بینکنگ اور دیگر شعبے وجود میں آئے ہیں ، پہلے دینی چینلز نہ تھے ، مگر اب مین اسٹریم ( Main Stream ) اور سوشل میڈیا ، دونوں جگہ دینی چینلز کثرت سے ہیں ، دینی کتب کی اِشاعت میں کثرت ہے ، لائبریریاں اور اُن میں دینی کتب کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ، ماضی میں اعتکاف کرنے والے انتہائی قلیل ہوا کرتے تھے ، مگر اب دورانِ اعتکاف مساجِد کی رونق کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چند دہائیاں قبل عمرہ اور حج پر جانے والوں کی تعداد اِس قدر کثرت سے نہ تھی ، مگر فی زمانہ کم و بیش بیس لاکھ سے زیادہ مسلمان حج پر جارہے ہیں اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد بھی اس کے برابر ہوچکی ہے۔
مذکورہ بالا تمام حقائق ہم سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، بلکہ ہم خود اِس حقیقت کا حصہ ہیں ، لہٰذا پریشان حال لبرلز کا یہ راگ اَلاپنا کہ اسلام پسپا ہو رہا ہے یا ہو جائے گا ، فقط خام خیالیاں ہیں ، ہاں دوسری طرف اِس تلخ حقیقت سے بھی رُخ نہیں موڑا جاسکتا کہ مسلمانوں میں بےحیائی ، بدعملی اور بے راہ رَوِی بڑھ رہی ہے ، مگر یہ بات یاد رکھیے کہ یہ حق وباطل و نیکی و بدی کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی ، ایسا ہر گز نہ ہو گا کہ تمام انسان مسلمان اور جمیع کلمہ گو ” صالحین “ اور ” متقین “ میں سے ہوجائیں الا ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠ ( ۹ ) ) ترجمہ : اور اگر وہ ( اللہ ) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ ( پ14 ، النحل : 09 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) لیکن خدا کی مَشِیَّت ہے کہ روشنی کے ساتھ تاریکی بھی ہو ، کہ روشنی کی پہچان اُسی وقت ہوگی ، جب تاریکی بھی ہوگی! لہٰذا یہ خدا کی قدرت ہے کہ عالَم کا نظام یوں ہی چل رہا ہے ، مگر بحیثیتِ مجموعی اسلام کی پسپائی کبھی نہ ہو گی اور نہ ہی کبھی سب مسلمان پسپا ہو جائیں گے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی