سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب نے مغرب کی پہلی رکعت میں صرف ثناء پڑھی اور رکوع میں چلے گئے ، مقتدی نے لقمہ دیا، تو امام صاحب نے رکوع سے واپس آکر قراءت کی،پھر رکوع کیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کیا۔ تو کیا مقتدی و امام کی نماز درست ہو گئی ؟
جواب: صورت مسئولہ میں مقتدی نے جو لقمہ دیا وہ درست، بر محل اور مفید تھا، لہٰذا اس لقمے کی وجہ سے نہ اس کی نماز میں کوئی خلل آیا اور نہ ہی اس لقمہ کو لینے کی وجہ سے امام کی نماز میں کوئی خلل آیا، اور سب کی نماز درست ہوگئی ۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ امام کو لقمہ دینا در اصل امام سے کلام کرنا ہے اور قیاس کے مطابق لقمے کی ہر صورت میں نماز فاسد ہونی چاہیے، لیکن ہمارے فقہائے کرام نے دو مواقع پر لقمہ دینے کوخلافِ قیاس جائز رکھا ہے ۔ وہ دو مواقع یہ ہیں :
(1)ایسا موقع کہ جہاں لقمہ دینا نص سے ثابت ہو ، اس موقع پر لقمہ دیا جائے، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
(2)وہ موقع جہاں اصلاحِ نماز کی حاجت ہو یعنی اگراس موقع پر لقمہ نہ دیا جائے، تو نماز میں خلل یا فساد واقع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ایسے موقع پر بھی بوجہ حاجت لقمہ دینے ولینے سے نماز فاسد نہیں ہوگی ۔
اس اصول کی مکمل تحقیق و تنقیح امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے اپنے فتاوی میں ذکر کی ہے، اسی میں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں ،چنانچہ آپ لکھتے ہیں :”ہمارے امام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ بتانا اگرچہ لفظاًقراء ت یاذکر مثلاً: تسبیح وتکبیر ہے اور یہ سب اجزا واذکار نماز سے ہیں، مگر معناً کلام ہے کہ اس کا حاصل امام سے خطاب کرنا اور اسے سکھانا ہوتاہے یعنی توبھولا، اس کے بعد تجھے یہ کرناچاہئے، پرظاہر کہ اس سے یہی غرض مراد ہوتی ہے اور سامع کوبھی یہی معنی مفہوم، تو اس کے کلام ہونے میں کیاشک رہا ،اگرچہ صورۃً قرآن یاذکر، و لہٰذا اگرنماز میں کسی یحییٰ نامی کو خطاب کی نیت سے یہ آیہ کریمہ﴿ یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ﴾پڑھی، بالاتفاق نماز جاتی رہی،حالانکہ وہ حقیقۃً قرآن ہے، اس بنا پرقیاس یہ تھا کہ مطلقاً بتانا، اگرچہ برمحل ہو ، مفسد نماز ہو کہ جب وہ بلحاظ معنی کلام ٹھہرا تو بہرحال افساد نماز کرے گا ،مگرحاجت اصلاح نماز کے وقت یا جہاں خاص نص وارد ہے، ہمارے ائمہ نے اس قیاس کوترک فرمایا اور بحکم استحسان جس کے اعلی وجوہ سے نص وضرورت ہے جواز کاحکم دیا “(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ 257، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید فرماتے ہیں :”پس جو بتانا حاجت و نص کے مواضع سے جدا ہو،وہ بیشک اصل قیاس پر جاری رہے گا کہ وہاں اس کے حکم کاکوئی معارض نہیں۔۔۔۔۔علامہ ابن امیرالحاج حلبی ’’حلیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ الذی یفتح کانہ یقول خذ منی کذا والتعلیم لیس من الصلاۃ فی شیئ وادخال مالیس منھا فیھا یوجب فسادھا وکان قضیۃ ھذا المعنی ان تفسد صلاتہ اذا فتح علی امامہ لکن سقط اعتبار التعلیم للاحادیث و للحاجۃ الی اصلاح صلاۃ نفسہ فماعدا ذلک یعمل فیہ بقضیۃ القیاس اھ ملخصا بالمعنی‘‘ لقمہ دینے والا گویا کہہ رہاہوتاہے کہ ’’مجھ سے یہ لے لو‘‘ اور سکھانا نماز کاحصہ نہیں اور ایسی شے کانماز میں داخل کرنا جو نماز میں سے نہیں، نماز کے فساد کاسبب ہے۔ اس بات کے پیش نظر ہونایہی چاہئے کہ جب امام کو لقمہ دیاجائے ،تو بھی نماز فاسد ہوجائے لیکن اس صورت میں نماز کے فساد کا حکم اس لیے جاری نہیں کیاجاتا،کہ احادیث میں اس کی اجازت ہے اور نماز کی اصلاح کی بھی حاجت ہے،البتہ اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں قیاس پر عمل کیاجائے گا(یعنی نماز فاسد ہوجائے گی) ملخصاً بالمعنٰی۔(ت)“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ260، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اس اصول کے واضح ہو جانے کے بعد اب اگر ہم سوال کی صورت کو دیکھیں، تو اس صورت میں امام نے فرضوں کی پہلی رکعت میں قراءت بھول کر چھوڑدی اور رکوع میں چلے گئے ،اس سے فی الحال اگرچہ فساد نماز کا حکم نہیں ہوا ( لأن الرباعي لا تفسد بترك القراءة في الأوليين إذا وجدت في الأخريين “قالہ الامام احمد رضا خان رحمہ اللہ فی تعلیقاتہ علی الفتاوی الھندیۃ) لیکن یہ ترکِ واجب ہے، کیونکہ فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں ہی قراءت کرنا واجب ہوتا ہے، لہذا قراءت بھول کر رکوع میں جانے سے سجدہ سہو لازم ہوا، البتہ ایسی صورت میں شرعی حکم یہ ہوتا ہے کہ اگر اس رکعت کا سجدہ کرنےسے پہلے پہلے یاد آ گیا، مثلا: رکوع میں یاد آ گیا، تو وہ نمازی واپس قیام میں آئے اور قراءت کرنے کے بعد دوبارہ رکوع کرے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے، چنانچہ
فتح القدیرمیں ہے:’’لو تذكر في الركوع أو بعد الرفع منه يعود فيقرأ في ترك الفاتحة الفاتحة ثم يعيد السورة ثم الركوع فإنهما ير تفضان بالعود إلى قراءة الفاتحة وفي السورة السورة، ثم يعيد الركوع لارتفاضه بالعود إلى ما محله قبله على التعيين شرعا ويسجد للسهو‘‘ ترجمہ:اگررکوع میں یارکوع سے اٹھنے کے بعدیادآیا،تووہ لوٹے گااورفاتحہ ترک کرنے کی صورت میں فاتحہ کی قراء ت کرے گا،پھرسورت لوٹائے گاپھررکوع ،کیونکہ یہ دونوں فاتحہ کی قراءت کی طرف لوٹنے سے ختم ہوجاتے ہیں اورسورت ترک کرنے کی صورت میں سورت کی تلاوت کرے گا،پھررکوع لوٹائے گاکہ جس چیزکامحل رکوع سے پہلے شریعت کی طرف سے متعین ہے ،اس کی طرف لوٹنے کی وجہ سے رکوع ختم ہوگیاہے اورسجدہ سہوکرے گا۔(فتح القدیر،باب سجودالسھو،ج1،ص503،دارالفکر،بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر سورۂ فاتحہ پڑھ کر سُورت ملانا بھول گیا اور وہاں یا د آیا، تو حکم ہے رکوع کو چھوڑے اور قیام کی طرف عود کرکے سورت پڑھے اور رکوع میں جائے۔“(فتاوی رضویہ،ج8،ص411،رضافاونڈیشن،لاھور)
خلاصہ یہ کہ جو شخص قراءت بھول کر رکوع میں چلا جائے، اس کو حکم شرع یہی ہے کہ وہ قیام کی طرف عود کرے (یعنی لوٹے)اورقراءت کرے ،تو یہاں مقتدی نے جو امام کو رکوع میں جانے کے بعد لقمہ دیا، تو وہ اسی عود کی طرف بلایا ہے، جس کا شریعت نے حکم دیا،لہذا یہ لقمہ اس اعتبار سے بر محل و مفید ہے ،اس لیے ا س سے نماز فاسد نہ ہوگی، جیسا کہ فتاوی فقیہ ملت میں ہے :
”مسئلہ: اگر مغرب کی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد رکوع میں چلا جائے اور مقتدی لقمہ دے جبکہ پوری جماعت رکوع میں ہے ،تو امام کیا کرے؟
الجواب: جن رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے ،ان میں اگر صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع میں چلا جائے، پھر اسے خود یا مقتدی کے لقمہ دینے سے یاد آئے، تو وہ فوراً قیام کی طرف پلٹ آئے اور سورۃ پڑھ کر، پھر رکوع کرے اور بقیہ رکعتوں کو پوری کر کے آخر میں سجدہ سہو کرے۔ اور اگر بعد رکوع سجدہ میں یاد آئے ،تو قیام کی طرف نہ لوٹے ،بلکہ آخر میں صرف سجدہ سہو کرے ۔۔۔۔۔لہذا صورت مسئولہ میں امام مذکور کو چاہئے کہ مقتدی کے لقمہ دینے پر فورا ًقیام کی طرف لوٹ آئے اور امام کی اتباع میں پوری جماعت بھی قیام کی طرف لوٹے اور امام سورۃ پڑھ کر پھر سے رکوع کرے اور بقیہ نماز پوری کر کے آخر میں سجدہ سہو کرے۔“(فتاوی فقیہ ملت، جلد1، صفحہ218، شبیر برادرز، لاھور)
اس کی نظیر وہ مسئلہ بھی ہے کہ قعدہ اولیٰ بھول کرامام قیام کی طرف گیااورقیام کے قریب ہوگیا،تواب اگرچہ قیام کے قریب پہنچ جانے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو چکا ہے، لیکن حکم شرع یہی ہے کہ یہاں بھی یاد آ گیا ،تو واپس لوٹ کر تشہد پڑھے گا ،لہذا امام کے مکمل سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے اگر مقتدی نے لقمہ دیا ،تو یہ لقمہ درست ہے، ہاں مکمل سیدھا کھڑا ہونے کے بعد چونکہ لوٹنا جائز نہیں ، اس لئے مکمل سیدھا کھڑا ہونے کے بعد مقتدی کا لقمہ دینا محض بے فائدہ و بے جاہے ، جس سے نماز فاسد ہو جائے گی ۔
بحرالرائق میں ہے: ”ولا يسبح للإمام إذا قام إلى الأخريين لأنه لا يجوز له الرجوع إذا كان إلى القيام أقرب فلم يكن التسبيح مفيدا كذا في البدائع وينبغي فساد الصلاة به ۔۔۔۔ثم رأيته في المجتبى قال ولو قام إلى الثالثة في الظهر قبل أن يقعد فقال المقتدي سبحان اللہ قيل لا تفسد وعن الكرخي تفسد عندهما،اهـ“ترجمہ: جب امام (قعدہ اولیٰ بھول کر )آخری دورکعتوں کی طرف کھڑاہو،تومقتدی امام کولقمہ نہ دے کیونکہ امام جب قیام کے زیادہ قریب ہوجائے،تواس کے لیے واپس لوٹناجائزنہیں ہوتا،پس اس موقع پر لقمہ دینابے فائدہ ہے، اسی طرح بدائع میں ہے، اور اس لقمے کی وجہ سے نماز بھی فاسد ہو جانی چاہیے۔پھر میں نے مجتبیٰ میں دیکھا کہ اس میں صاحب مجتبیٰ نے فرمایا: اگر امام ظہر کی نماز میں قعدہ اولی میں بیٹھنے سے پہلے ہی تیسری رکعت کی طرف کھڑا ہوا جس پر مقتدی نے ”سبحان اللہ “ کہا ، تو ایک قول یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی اور امام کرخی سے منقول ہے کہ صاحبین کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی۔
اس مقام پر علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ حاشیہ منحۃ الخالق میں لکھتے ہیں : ” قال في النهر أقول: الظاهر أن هذا الاختلاف له التفات إلى آخر هو أنه لو عاد بعد ما كان إلى القيام أقرب ففي فساد صلاته خلاف وعلى عدمه فهو مفيد اهـ.أي وعلى القول بعدم الفساد فالتسبيح مفيد وسيأتي في السهو تصحيح المؤلف القول بعدم الفساد وأنه الحق فما بحثه هنا مبني على خلاف ما سيحققه“ترجمہ: صاحب نہر الفائق نے فرمایا: ” میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہ ہے کہ قیام کے قریب ہونے کے بعد امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو گی یا نہیں ؟اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے اختلاف پر ہے اور وہ یہ کہ قیام کے زیادہ قریب ہونے کے بعدواپس لوٹنے کی صورت میں نمازفاسد ہونے والے مسئلے میں اختلاف ہے اورجس قول کے مطابق واپس لوٹنے سے نمازفاسدنہیں ہوتی اس قول کے مطابق اس موقع پرلقمہ دینا یعنی مقتدی کا تسبیح کہنا بھی مفید ہے (لہٰذا اس سے مقتدی کی نماز بھی فاسد نہیں ہوگی)۔ (علامہ شامی آگے فرماتے ہیں :)صاحب بحر باب السہو میں آگے یہ نقل کریں گے کہ قیام کے زیادہ قریب ہونے کے بعدواپس لوٹنے کی صورت میں نمازفاسد نہ ہونے والا قول ہی صحیح ہے اور یہی حق ہے، لہٰذا صاحب بحر نے جو یہاں بحث کی ہے (کہ مقتدی کے لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو جائے گی) یہ بحث ان کی آنے والی تحقیق کے برخلاف ہے ۔(منحۃ الخالق مع البحرالرائق،ج2،ص8،دارالکتاب الاسلامی،بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:”جبکہ امام پہلاقعدہ بھول کر اُٹھنے کو ہوا اورابھی سیدھا نہ کھڑا ہو ا تھا، تو مقتدی کے بتانے میں کوئی حرج نہیں،بلکہ بتانا ہی چاہئے ،ہاں اگر پہلا قعدہ چھوڑ کر امام پُورا کھڑا ہوجائے ،تو اس کے بعد بتانا، جائز نہیں اگر مقتدی بتائے گا ،تو اس کی نماز جاتی رہے گی اور اگر امام اس کے بتانے پر عمل کرے گا، تو سب کی جائےگی کہ پُورا کھڑا ہوجانے کے بعد قعدہ اولیٰ کے لیے لوٹنا حرام ہے، تو اب مقتدی کا بتانا محض بیجا،بلکہ حرام کی طرف بلانا اور بلا ضرورت کلام ہوا اور وہ مُفسد نماز ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج6،ص330،رضافاونڈیشن،لاھور)
فتاوی فیض الرسول میں اسی طرح کاسوال ہوا،تواس کے جواب میں فرمایا:”اگرامام قعدہ اولیٰ بھول کرسیدھا کھڑاہوگیا،اس کے بعدمقتدی کے لقمہ دینے سے بیٹھ گیااورامام کی پیروی میں سب مقتدی بیٹھ گئے، توکسی کی نمازنہ ہوئی سب کی نمازباطل ہوگئی، اس لیے کہ سیدھاکھڑاہوجانے کے بعدبیٹھناگناہ ہے ۔۔۔لہٰذامقتدی نے امرِناجائزکے لیے لقمہ دیا،تواس کی نمازفاسدہوگئی،پھرامام اس مقتدی کے بتانے سے لوٹاجونمازسے خارج تھا،تواس کی نمازبھی باطل ہوگئی اورمقتدیوں کی نمازبھی فاسدہوگئی ۔اوراگرابھی امام سیدھانہ کھڑاہوا،تھا، بلکہ کھڑے ہونے کے قریب تھااورمقتدی کے لقمہ دینے پربیٹھ گیا،پھرآخرمیں سجدہ سہوکیا،توسب لوگوں کی نمازہوگئی ،اس لیے کہ جب سیدھا کھڑانہ ہو،تومذہب اصح میں پلٹ آنے کاحکم ہے ۔۔۔فتاو ی رضویہ میں ہے:”اگرقیام سے قریب ہوگیایعنی بدن کانصف زیریں سیدھااور پیٹھ میں خم باقی ہے، تو بھی مذہب اصح وارجح میں پلٹ آنے ہی کا حکم ہے، مگر اب اس پر سجدہ سہو واجب، اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو پلٹنے کا اصلاً حکم نہیں۔“(فتاوی فیض الرسول ،ج1،ص386-87،شبیربرادرز،لاھور)
فتاوی فقیہ ملت میں ہے: ” اگر امام پورا کھڑا ہو گیاتھا، تو اس کے بعد مقتدی نے لقمہ دیا، تو بیجا لقمہ دینے کے سبب اس کی نماز اسی وقت جاتی رہی۔ اس لیے کہ سیدھا کھڑے ہونے کے بعد امام کو پلٹنے کا حکم نہیں ۔۔۔اور مقتدی نے اگر ایسے وقت میں لقمہ دیا کہ امام قیام کے قریب تھا یعنی نیچے کا آدھا بدن سیدھا ہو گیا تھا،مگر پیٹھ میں خم باقی تھا یا قعود سے قریب تھا کہ نیچے کا آدھا بدن ابھی سیدھا نہ ہونے پایا تھا ،تو ان صورتوں میں امام کو لوٹنے کا حکم ہے، تو بیجا لقمہ نہ ہونے کے سبب مقتدی کی نماز فاسد نہ ہوئی۔۔۔الخ“(فتاوی فقیہ ملت، جلد1، صفحہ218، شبیر برادرز، لاھور)
ان سب جزئیات سے یہ واضح ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نےمکمل قیام سے پہلے لقمہ دینے کی اجازت دی ہے اور خط کشیدہ عبارات سے یہ بھی واضح ہے کہ اس صورت میں فقہائے کرام نے لقمہ کے جائز ہونے کی بنیاد لقمہ کے مفید ہونے کو قرار دیا ہے۔اوراس محل میں لقمہ دینے کے متعلق امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے ایک اور مقام پر گفتگو کی ہے اوراس گفتگو سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں لقمہ کے مفید ہونے کے اعتبار سے ہی جواز ہے،چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
’’یہاں ایک وہم ہو سکتا تھا کہ تشہد سے بھول کر کھڑے ہونے میں جو وقفہ ہے ، یہ معمولی وقفہ ہے اور امام کی بھول پر مقتدی کا مطلع ہونا، پھر لقمہ دینا اور پھر امام کا لقمہ سن کو متنبہ ہونا، ان تینوں باتوں میں کچھ وقت لگ جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ لقمہ لے کر غلطی سمجھتے سمجھتے امام قیام تک پہنچ جاتا ہے ،یوں کسی کو وہم ہو سکتا تھا کہ اس مقام پر لقمہ دینا مطلقا ً عبث (فضول) اور نماز کے فساد کا باعث ہے۔“
اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے امام اہل سنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جس وقت لقمہ دیا جائے، اس وقت اس کا مفید ہونا ، لقمہ کے جواز کے لیے کافی ہے اور یہاں یہ صورت متوقع ،بلکہ واقع بھی ہوتی ہے کہ کبھی امام قیام سے پہلے پہلے لقمہ لے کر واپس آ جاتا ہے، لہٰذا یہ لقمہ عبث نہیں ،بلکہ مفید ہے ۔فتاوی رضویہ کی متعلقہ عبارت درج ذیل ہے:
”لمتوھم ان یتوھم عدم الجواز ھھنا مطلقا کمایتوھم من ظاھر لفظ البدائع لایسبح للامام اذاقام الی الاخریین حیث لم یفصل والحاوی علی الوھم ان المقتدی لایطلع علی قیام الامام بفورہ بل یتاخر ذلک عن افاضتہ فی القیام ولولحظات کما ھو معلوم مشاھد فعند ذلک یسبح ثم الامام لاینبہ بفور مابدأ المقتدی بحرف التسبیح بل یتاخرولو لحظۃ ثم ھو ربما لایتذکر بمجرد السماع والتنبہ علی تنبیھہ بل قدیحتاج الی شیئ من التامل فھذہ ثلث وقفات و الامام اذا نھض نھض ولم یکن فیہ تدرج یقتضی مکثا معتدا بہ فربما لایتنبہ بتسبیحہ الابعد مافات وقت العود۔۔۔۔واذا کان الامر علی ماوصفنا لک فعسی ان یتوھم کونہ عبثا مطلقا فیحکم بفساد الصلٰوۃ بہ علی الاطلاق فمست الحاجۃ الی التصریح بذلک فان المسموع ھوکونہ مفیداحین وقوعہ وھوکذٰلک فی فورالقیام ولربما یرجی العود بہ بل ربما یقع وھذا حسبہ ولایضرہ ان تعجل الامام ولم یلتفت کما اذا فتح ولم یاخذ“عبارت کا مفہوم اور خلاصہ اوپر بیان ہوا۔(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ267و268،رضافاونڈیشن،لاھور)
یہاں کثیر جزئیات نقل کرنےسے مقصدیہ واضح کرنا ہے کہ قعدہ اولیٰ چھوڑ کر جو شخص قیام کے قریب ہو چکا ہے ، اس وقت لقمہ دینے کو جو فقہائے کرام جائز بتاتے ہیں، تو وہاں اس کے جواز کی بنیاد نص کو نہیں بناتے، بلکہ لقمہ کے مفید ہونے کوہی بناتے ہیں، لہٰذا اس موقع پر لقمہ دینے کا ثبوت اگرچہ نص میں بھی موجود ہے ،لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں کہ وجہِ جواز لقمہ کے مفید ہونے کو بنایا جائے۔بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض مواقع میں لقمہ دینا اصلاح نماز کے اعتبار سے بھی مفید ہوتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس مقام پر لقمہ دینے کا ثبوت نص میں بھی ہوتاہے ۔یہ دونوں علتیں جمع ہو سکتی ہیں۔ان میں کوئی تضاد نہیں ، ہاں بعض مواقع ایسے ہوں گے جہاں اصلاح نماز کے اعتبار سے لقمہ مفید نہ ہوگا، تو ایسے مواقع میں لقمہ دینے کی اجازت فقط نص کی بنیاد پر ہوگی ۔
خلاصہ یہ کہ قراءت چھوڑ کر رکوع میں جانے والی صورت، تشہد چھوڑ کر قیام کے قریب ہو جانے والی صورت کے بالکل مشابہ اور دونوں میں لقمہ کے جواز کی وجہ لقمہ کا مفید ہونا ہے۔اور اول الذکر میں نص کا وارد نہ ہونا مضر نہیں، کیونکہ ثانی الذکر صورت جس کو ہم نے نظیر بنایا ، اس میں جوازِ لقمہ کی بنیاد نص پر نہیں رکھی گئی۔
اشکال:شروع میں بیان کیا گیا کہ لقمے کی اجازت دو مواقع پر ہےیعنی نص اور حاجت کے موقع پر ۔ اور سوال کی صورت میں لقمہ دینا نص سے تو ثابت نہیں ہے اور یہاں اصلاحِ نماز کی حاجت بھی سمجھ نہیں آتی ،کیونکہ امام کو اگر لقمہ نہ بھی دیا جاتا، تو امام یہ قراءت والا فرض، تیسری یا چوتھی رکعت میں بھی ادا کر سکتا تھا، لہٰذا فسادِ نماز کا اندیشہ فی الحال تو کوئی نہیں ہےاور جہاں تک سجدہ سہو کا تعلق ہے ،تو بھول کر رکوع میں چلے جانے کی وجہ سے سجدہ سہو ،تو واجب ہو چکا ہے اور لقمہ کی وجہ سے اگرچہ امام واپس لوٹ کر قراءت کر لے تب بھی جو سجدہ سہو واجب ہو چکا، وہ تو ختم نہیں ہوگا، لہٰذا جو کچھ ہونا تھا، وہ تو ہو چکا اور اس لقمہ سے اس خلل کا ازالہ ہونا نہیں اور مزید کسی خلل کا اندیشہ نہیں، تو یہ لقمہ محض بلا فائدہ واقع ہوا، اور ایسے لقمے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے،جیسا کہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے ایک اور مسئلے کے متعلق یہی جواب دیا ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
” جب امام کوقعدہ اولیٰ میں دیرہوئی اور مقتدی نے اس گمان سے کہ یہ قعدہ اخیرہ سمجھا ہے،تنبیہ کی، تودوحال سے خالی نہیں،یا تو واقع میں اس کاگمان غلط ہوگا یعنی امام قعدہ اولیٰ ہی سمجھا ہے اور دیر اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے اس بار التحیات زیادہ ترتیل سے ادا کی جب توظاہر ہے کہ مقتدی کابتانا نہ صرف بے ضرورت ،بلکہ محض غلط واقع ہوا،تویقینا کلام ٹھہرا اور مفسد نماز ہوا ۔۔۔۔۔یا اس کا گمان صحیح تھا، غورکیجئے تو اس صورت میں بھی اس بتانے کامحض لغو وبے حاجت واقع ہونا اور اصلاح نماز سے اصلاً تعلق نہ رکھنا ثابت کہ جب امام قعدہ اولی میں اتنی تاخیر کرچکا جس سے مقتدی اس کے سہو پر مطلع ہوا ،تولاجرم یہ تاخیر بقدرکثیر ہوئی اور جوکچھ ہوناتھا یعنی ترک واجب ولزوم سجدہ سہو وہ ہوچکا ،اب اس کے بتانے سے مرتفع نہیں ہوسکتا اور اس سے زیادہ کسی دوسرے خلل کا اندیشہ نہیں جس سے بچنے کو یہ فعل کیاجائے کہ غایت درجہ وہ بھول کر سلام پھیردے گا ،پھر اس سے نماز تو نہیں جاتی، وہی سہو کاسہورہے گا، ہاں جس وقت سلام شروع کرتا ، اس وقت حاجت متحقق ہوتی اور مقتدی کوبتاناچاہئے تھا کہ اب نہ بتانے میں خلل وفسادنماز کااندیشہ ہے کہ یہ تواپنے گمان میں نماز تمام کرچکا،عجب نہیں کہ کلام وغیرہ کوئی قاطع نماز اس سے واقع ہوجائے، اس سے پہلے نہ خلل واقع کاازالہ تھا، نہ خلل آئندہ کااندیشہ، تو سوافضول وبے فائدہ کے کیاباقی رہا، لہٰذا مقتضائے نظر فقہی پر اس صورت میں بھی فسادنماز ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ264، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اس فتوے میں امام اہلسنت نے یہ جو فرمایا کہ : ” جوکچھ ہوناتھا یعنی ترک واجب ولزوم سجدہ سہو وہ ہوچکا اب اس کے بتانے سے مرتفع نہیں ہوسکتا اور اس سے زیادہ کسی دوسرے خلل کا اندیشہ نہیں جس سے بچنے کو یہ فعل کیاجائے “ یہی حال صورتِ مسئولہ کا بھی ہے، لہٰذا یہاں بھی لقمہ بلا حاجت ہونے کی وجہ سے فساد نماز کا حکم ہونا چاہیے۔
جواب:ہماری صورتِ مسئولہ میں لقمہ دینا فضول و بے فائدہ ہرگز نہیں، بلکہ مفید ہے اور امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے جس صورت کے متعلق فسادِ نماز کا حکم دیا ، وہاں لقمہ فضول و بے فائدہ تھا ، اسی فرق کی وجہ سے ہماری صورت مسئولہ میں نماز کے فساد کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
اس فرق کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جس صورت میں امام اہلسنت نے لقمہ فضول و بے فائدہ قرار دے کر نماز فاسد ہونے کا حکم بیان کیا وہ صورت یہ ہے کہ امام نے التحیات پڑھنے کے فوراًبعد کھڑا ہونا تھا، لیکن اس نے اتنی تاخیر کر دی جس سے سجدہ سہو لازم ہو چکا تھا۔ اب اس موقع پر اگر امام کو لقمہ دیا جائے ،تو وہ تاخیر جو ہو چکی وہ تو ختم نہیں ہونی اوراس کے علاوہ بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونااورلقمہ نہ دینے کی صورت میں اس تاخیروالے خلل کے علاوہ کسی خلل کا اندیشہ بھی نہیں ،لہٰذا لقمہ نہ دینے کا حکم دیا گیا ۔
اورجہاں تک ہماری صورت کا تعلق ہے، تو اس میں ایک خلل و نقص تو واقع ہو چکا کہ امام قراءت بھول کر رکوع میں چلا گیا اور یوں ترتیب والے واجب میں خلل پیدا ہو چکا ، جس کا ازالہ لقمہ دینے سے نہیں ہو سکے گا،اس اعتبار سے تو یہ لقمہ مفید نہیں لیکن ایک دوسرا فائدہ اس لقمے سے ضرور حاصل ہوگا وہ یہ کہ قیام کی طرف واپس لوٹ کر قراءت کا رکن اسی رکعت اور اپنے محل میں ادا کیا جاسکتا ہے،جو بذات خود ایک واجب ہے( جیسا کہ اوپر فتح القدیر وغیرہ جزئیات سے گزرا) لہٰذا اس محل میں لقمہ دینا فضول اور بے فائدہ نہیں، بلکہ ایک واجب کی ادائیگی میں معاون و مفید ہے اور یہ ایسا فائدہ ہے، جو لقمہ دینے سے ہی حاصل ہوگا، لہٰذا اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
اس کی نظیر ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں کہ قعدہ اولیٰ بھول کر جب امام کھڑا ہونے کے قریب ہوچکا تھا، تو اس موقع پر بھی یہی کیفیت تھی کہ سجدہ سہو جو واجب ہو چکا تھا، وہ لقمہ دینے سے ختم نہیں ہونا تھا، لیکن اس لقمہ کو اسی وجہ سے مفید قرار دیا گیا کہ وہاں اس لقمہ کی وجہ سے حکم شرع پر عمل ممکن ہو رہا ہے اور وہ ہے” قعدہ کی طرف عود کر کے التحیات پڑھنے ولا حکم“اسی وجہ سے صاحب نہراور علامہ شامی نے فرمایا: ”وعلى القول بعدم الفساد فالتسبيح مفيد “یعنی جب عود کرنے سے نماز فاسد نہیں ہے ،تو عود کی طرف بلانے کے لیے تسبیح کہنا بھی مفید ہے اور یہی بات امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کے کلام سے ہی واضح ہوتی ہے۔
اس توجیہ کے مطابق تمام فتاوی میں توفیق و تطبیق بھی پیدا ہو جاتی ہے ،ورنہ اگر قراءت بھول کر رکوع میں چلے جانے کی صورت میں لقمہ دینے کو مفسد قرار دیا جائے، تو اس مسئلے میں اور قعدہ اولیٰ کی طرف بلانے والے مسئلے میں تضاد لازم آئے گا، لہٰذا تحقیق یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں لقمہ مفید ہونے کی وجہ سے لقمہ کے درست ہونے اور نماز کے فاسد نہ ہونے کا حکم دیا جائے ۔
اشکال:امام بھول کر جب رکوع میں چلا گیا، وہ تو بھولا ہوا ہے ،اس وجہ سے اس پر تو لوٹنا فی الحال واجب ہی نہیں ہوا اور مقتدی بھی اگر نہ بتائے، تو نماز پھر بھی صحیح ہو سکتی ہے، وہ یوں کہ چھوٹی ہوئی قراءت آخری دو رکعتوں میں سے کسی رکعت میں کر لی جائے اور آخر میں سجدہ سہو کر لیا جائے ، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال مقتدی کا بتانا متعین نہیں ہوا۔
جواب: امام اگرچہ فی الحال بھول پر ہےاور بھول کی وجہ سے اس پر گناہ بھی نہیں ،لیکن چونکہ امام کی غلطی سے مقتدی کی نماز پر بھی اثر پڑنا ہے اور مقتدی کو فی الحال یاد بھی ہے، لہذ امقتدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لقمہ دے کر حتی الامکان امام کی نماز ٹھیک کروائے ، تاکہ اس کی اپنی نماز بھی ٹھیک رہے ، لہٰذا امام کے بھولنے کے باوجود مقتدی کو اپنی نماز کی اصلاح کی حاجت ہے اور نماز کو نقص سے بچانے کے لیے لقمہ دینا ضروری ہے ۔
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کی درج ذیل عبارت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ”اورا گر غلطی ایسی ہے جس سے واجب ترک ہو کر نماز مکروہ تحریمی ہو، تو اس کا بتانا ہرمقتدی پر واجب کفایہ ہے، اگر ایک بتادے اور اس کے بتانے سے کاروائی ہوجائے، سب پر سے واجب اُترجائے ،ورنہ سب گنہگار رہیں گے:’’فان قیل لہ مصلح اخر وھو سجود السهو فلایجب الفتح عینا قلت بلی فان ترک الواجب معصیۃ وان لم یاثم بالسھو و دفع المعصیۃ واجب ولایجوز التقریر علیها بناء علی جابر یجرھا کمالایخفی‘‘(ترجمہ: اگریہ کہاجائے کہ یہاں اصلاح کی دوسری صورت، بصورتِ سجدہ سہو موجود ہے، تویہاں لقمہ دینا واجب نہ ہوگا۔ قلت : کیوں نہیں(واجب ہوگا؟)، اس لیے كہ ترک واجب معصيت ہے،اگرچہ سہو كی وجہ سے وه گنہگار نہیں، اور معصيت كو دور كرنا واجب ہوتاہے اورمعصیت پربرقرار ركھنا ، اس لیے کہ کسی دوسرے جابر سے اس کی تلافی ہو جائے گی ، یہ بھی جائز نہیں جیسا کہ مخفی نہیں۔)(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ281،رضافاونڈیشن،لاھور)
ہدایہ میں ہے: ”(وإن فتح على إمامه لم يكن كلاما مفسدا) استحسانا لأنه مضطر إلى إصلاح صلاته فكان هذا من أعمال صلاته معنى“ترجمہ: اور اگر مقتدی نے اپنے امام کو لقمہ دیا، تو یہ استحساناً مفسد کلام شمار نہ ہوگا ،کیونکہ مقتدی اپنی نماز درست کرنے کے لیے لقمہ دینے پر مجبور ہے، لہٰذا یہاں لقمہ دینا معناً اپنی نماز کے اعمال میں سے ہی ہے۔(ھدایہ ، جلد1، صفحہ62، دار احياء التراث العربي، بيروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ” مقتدی کو اپنی نماز درست رکھنے کے لیے بتانے کی حاجت ہے ۔“(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ258،رضافاونڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم