سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اکثر اوقات دیکھا یہ گیا ہے کہ باجماعت نماز میں امام صاحب رکوع میں ہوتے ہیں،تو کچھ افراد رکعت پانے کےلیے دوڑ کر امام صاحب کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجاتے ہیں ،تو کیا اس طرح رکعت پانے کے لیے دوڑ کرجماعت میں شامل ہونا درست ہے؟
جواب: رکعت پانے کے لیے دوڑ کر جماعت میں شامل ہونا مکروہ وممنوع ہے،اس کی ممانعت کئی احادیث میں موجود ہے،حتی کہ بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان نے سید دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے جلدی کی،تو آپ نے انہیں بھی منع کر دیا اور فرمایا:’’نماز کے لیے سکون اور اطمینان کے ساتھ آؤ۔‘‘علمائے کرام رحمہم اللہ السلام نے اس کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(1)رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق نماز کا ارادہ کرنے والا گویا نماز ہی میں ہے کہ عنقریب وہ اسے اداکرنے والا ہے،لہذا اسے چاہئے کہ وہ نماز کے آداب کا خیال رکھے،خلاف ادب کوئی کام نہ کرے اور نماز کے لیے اس طرح دوڑنا بھی خلافِ ادب ہے۔
(2)عموماًدوڑنے والے شخص کا سانس پھول جاتا ہے،اگر وہ اسی حالت میں نماز میں شامل ہوگا،تو اذکارِ نماز کو احسن انداز سے ادا نہیں کر پائے گا اور خشوع و خضوع میں بھی خلل پیدا ہو گا،حالانکہ وہ شرعاً مطلوب ہے۔
(3)نماز کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا باعثِ ثواب ہےکہ ہر ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے اور دوڑنے و بھاگنے کی صورت میں اس ثواب میں کمی واقع ہوگی۔
(4)دوڑنے کی وجہ سے گرنے اور چوٹ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہےاور اس طرح اپنے لیے تکلیف کے اسباب اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔
ان کے علاوہ ویسے بھی مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا،جس سے دھمک پیدا ہو، بذاتِ خود منع ہے،لہذا نمازی کو چاہئے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان پر عمل اور مسجد کے آداب کا خیال کرتے ہوئےسکون واطمینان کے ساتھ آکر جماعت میں شامل ہو،اگر کوئی رکعت چھوٹ جاتی ہے،تو اسےامام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کر لے۔البتہ اگرکوئی شخص رکعت پانے کے لیے قدرے تیزی سے آتا ہے،جسے دوڑنا/ بھاگنا نہ کہاجائے ،اس کی وجہ سے مسجد میں دھمک پیدا نہ ہو اورنہ ہی گرنے و چوٹ لگنے کا خوف ہو،تواس میں حرج نہیں ۔
نماز کے لیے دوڑنے کی ممانعت پر احادیث:
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا ثوّب بالصلاة،فلا تاتوها وانتم تسعون واتوها وعليكم السكينة،فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا،فان احدكم اذا كان يعمد الى الصلاة،فهو فی صلاة‘‘ترجمہ:جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے،تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آؤ،تم نماز کی طرف آؤ اور اطمینان کے ساتھ رہو،پس جتنی رکعتیں تم پالو،انہیں پڑھ لواور جو فوت ہوجائیں، انہیں بعد میں مکمل کر لو،کیونکہ تم میں سے کوئی ایک جب نماز کا ارادہ کرتا ہے،تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔(الصحیح لمسلم،کتاب المساجد،باب استحباب اتیان الصلاۃبوقار ،ج1،ص265،مطبوعہ لاھور)
بعض اصحاب نے جماعت میں شامل ہونے کے لیے جلدی کی،تو انہیں بھی منع کر دیا گیا۔چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’بينما نحن نصلی مع النبی صلى اللہ عليه وسلم اذ سمع جلبة رجال، فلما صلى قال:ما شانكم؟قالوا:استعجلنا الى الصلاة؟قال:فلا تفعلوا،اذا اتيتم الصلاة فعليكم بالسكينة،فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا‘‘ ترجمہ:ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے،اچانک کچھ مردوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں،پس جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھا چکے،تو ارشاد فرمایا:تمہارا کیا معاملہ ہے؟انہوں نے عرض کیا:ہم نے نماز کی طرف جلدی کی ہے،ارشاد فرمایا:ایسا نہ کرو،جب تم نماز کی طرف آؤ،تو اطمینان کے ساتھ آؤ ،پس جتنی رکعتیں تم پا لو،وہ پڑھ لو اور جو فوت ہوجائیں،انہیں بعد میں پورا کر لو۔(الصحیح لبخاری،کتاب الاذان ،ج1،ص156،مطبوعہ کراچی)
ممانعت کی حکمتوں کے حوالہ سے علماء کے ارشادات:
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’والحكمة فی اتيانها بسكينة والنهی عن السعی:ان الذاهب الى صلاة عامد فی تحصيلها ومتوصل اليها، فينبغيی ان يكون متادبا بآدابها ‘‘ترجمہ:اور نماز کی طرف اطمینان کے ساتھ آنے اور دوڑنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک نماز کی طرف جانے والا،اس کو ادا کرنے کا ارادہ کرنے والا اور اس تک پہنچنے والا ہے،پس مناسب یہ ہے کہ وہ اس کے آداب کو بجا لائے۔ (شرح النووی علی مسلم ، ج5،ص99،مطبوعہ،دار احیاء التراث،بیروت)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ان المسرع اذا اقيمت الصلاة يصل اليها وقد انبهر،فيقرا في تلك الحالة،فلا يحصل له تمام الخشوع في الترتيل وغيره،بخلاف من جاء قبل ذلك،فان الصلاة قد لا تقام حتى يستريح۔۔ والحكمة فی منع الاسراع انه ينافی الخشوع وتركه ايضا يستلزم كثرة الخطى وهو امر مندوب مطلوب وردت فيه احاديث:منها حديث مسلم رواه عن جابر:ان بكل خطوة درجة‘‘ترجمہ:جب نماز قائم کی جائے گی ،تو تیز چل کر آنے والا اس حال میں نماز تک پہنچے گا کہ اس کا سانس پھولا ہوگا،پس اس حالت میں وہ جو کچھ بھی پڑھے گا،اسے ٹھہر کر پڑھنے وغیرہ معاملات میں مکمل خشوع حاصل نہیں ہوگا،بر خلاف اس شخص کے جو نماز قائم ہونے سے پہلے آیا ہو،کیونکہ نماز قائم نہیں ہوگی،یہاں تک کہ وہ کچھ سانس لے لے گااور دوڑنے سے منع کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ یہ خشوع کے منافی ہے اور اس کا ترک زیادہ قدم چلنے کو بھی مستلزم ہے اور نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا مستحب اور مطلوب ہے،اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں،ان میں سے ایک صحیح مسلم کی حضرت ِ جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ہر قدم پر ایک نیکی ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،ج5،ص152،مطبوعہ،دار احیاء التراث،بیروت)
اورمفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ یعنی جماعت کے لیے گھبرا کردوڑتے نہ آؤ کہ اس میں گِر جانے، چوٹ کھانے کا اندیشہ ہے۔۔یعنی جب سے وہ نماز کے ارادے سے گھر سے چلا،اسے نماز کا ثواب مل رہا ہے، پھرجلدی کیوں کرتا ہے،کیوں گرتا اورچوٹ کھاتا ہے،اطمینان سے آئے، جو پائے،اس کو ادا کرے۔خیال رہے کہ اگرتکبیراولی یارکوع پانے کے لیے قدرے تیزی سے آئے، مگر نہ اتنی کہ چوٹ لگنے، گرنے کا اندیشہ ہو،تومضائقہ نہیں، جیساکہ فارو ق اعظم کا عمل پہلے بیان ہوا۔‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص425تا426،مطبوعہ،نعیمی کتب خانہ،کراچی)
حکمِ مسئلہ پر فقہی جزئیات:
علامہ ابو بکر کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ ويؤمر من ادرك القوم ركوعا ان ياتي وعليه السكينة والوقار ولا يعجل في الصلاة حتى يصل الى الصف فما ادرك مع الامام صلى بالسكينة والوقار وما فاته قضى‘‘ترجمہ:جس نے امام کو رکوع میں پایا،اسے حکم دیا جائے گاکہ وہ اطمینان اور وقار کے ساتھ آئےاور نماز کے معاملہ میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اسی طرح صف تک پہنچ جائے،پس جو رکعتیں امام کے ساتھ مل گئیں،انہیں اطمینان اور وقار کے ساتھ پڑھ لے اور جو فوت ہوئیں،انہیں بعد میں پڑھ لے۔ (بدائع الصنائع،ج1،ص218،مطبوعہ،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نماز کے مکروہات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’والھرولۃ للصلاۃ‘‘اور نماز کے لیے دوڑنا مکروہ ہے۔(ردالمحتار،ج1،ص654،مطبوعہ،دار الفکر،بیروت)
مسجد میں دوڑنے سے متعلق ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:’’مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا،جس سے دھمک پیدا ہو، منع ہے ۔‘‘ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص318،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم