حج تمتع کے مسائل و شرائط

تَمتّع کا بیان

اللہ عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہے :

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْؕ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠(۱۹۶)[1]

جس نے عمرہ سے حج کی طرف تمتع کیا، اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے پھر جسے قربانی کی قدرت نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات۷ واپسی کے بعد، یہ دس پورے ہیں۔ یہ اُس کے لیے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) سے ڈرو اور جان لو کہ اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کا عذاب سخت ہے۔

تَمتّع اُسے کہتے ہیں کہ حج کے مہینے میں عمرہ کرے پھر اسی سال حج کا احرام باندھے یا پورا عمرہ نہ کیا، صرف چار پھیرے کیے پھر حج کا احرام باندھا۔

مسئلہ ۱: تَمتّع کے لیے یہ شرط نہیں کہ میقات سے احرام باندھے اس سے پہلے بھی ہو سکتا ہے بلکہ اگر میقات کے بعد احرام باندھا جب بھی تمتع ہے، اگرچہ بلا احرام میقات سے گزرنا گناہ اور دَم لازم یا پھر میقات کو واپس جائے۔ یوہیں تمتع کے لیے یہ شرط نہیں کہ عمرہ کا احرام حج کے مہینے میں باندھا جائے بلکہ شوال سے پیشتر بھی احرام باندھ سکتے ہیں،البتہ یہ ضروری ہے کہ عمرہ کے تمام افعال یا اکثر طواف حج کے مہینے میں ہو، مثلاً تین پھیرے طواف کے رمضان میں کیے پھر شوال میں باقی چار پھیرے کرلیے پھر اسی سال حج کر لیا تو یہ بھی تمتع ہے اوراگر رمضان میں چار پھیرے کر لیے تھے اور شوال میں تین باقی تو یہ تمتع نہیں اور یہ بھی شرط نہیں کہ جس سال احرام باندھا اسی سال تمتع کرلے مثلاً اس رمضان میں احرام باندھا اور احرام پر قائم رہا، دوسرے سال عمرہ پھر حج کیا تو تمتع ہوگیا۔ [2] (عالمگیری، ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۵۷، ۱۱۵۸)

(تَمتّع کے شرائط)

تمتع کی دس شرطیں ہیں:

1 حج کے مہینے میں پورا طواف کرنا یا اکثر حصہ یعنی چار پھیرے۔

2 عمرہ کا احرام حج کے احرام سے مقدم ہونا۔

3 حج کے احرام سے پہلے عمرہ کا پورا طواف یا اکژ حصہ کر لیا ہو۔

4 عمرہ فاسد نہ کیا ہو۔

5 حج فاسد نہ کیا ہو۔

6 اِلمام صحیح نہ کیا ہو۔ اِلمام صحیح کے یہ معنی ہیں کہ عمرہ کے بعد احرام کھول کر اپنے وطن کو واپس جائے اور وطن سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ رہتا ہے پیدائش کا مقام اگرچہ دوسری جگہ ہو، لہٰذا اگر عمرہ کرنے کے بعد وطن گیا پھر واپس آکر حج کیا تو تَمتّع نہ ہوا اور اگر عمرہ کرنے سے پیشتر گیا یا عمرہ کر کے بغیر حلق کیے یعنی احرام ہی میں وطن گیا پھر واپس آکر اسی سال حج کیا تو تمتّع ہے۔ یوہیں اگر عمرہ کرکے احرام کھول دیا پھر حج کا احرام باندھ کر وطن گیا تو یہ بھی اِلمام صحیح نہیں، لہٰذا اگر واپس آکرحج کریگا تو تمتّع ہوگا۔

7 حج و عمرہ دونوں ایک ہی سال میں ہوں۔

8 مکہ معظمہ میں ہمیشہ کے لیے ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، لہٰذا اگر عمرہ کے بعد پکا ارادہ کرلیا کہ یہیں رہے گا تو تمتع نہیں اور دو ایک مہینے کا ہو تو ہے۔

9 مکہ معظمہ میں حج کا مہینہ آجائے تو بے احرام کے نہ ہو، نہ ایسا ہو کہ احرام ہے مگر چار پھیرے طواف کے اس مہینے سے پہلے کر چکا ہے، ہاں اگر میقات سے باہر واپس جائے پھر عمرہ کا احرام باندھ کر آئے تو تمتع ہوسکتا ہے۔

10میقات سے باہر کا رہنے والا ہو۔ مکہ کا رہنے والا تمتّع نہیں کرسکتا۔ [3] (ردالمحتار)

مسئلہ ۲: تمتع کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لایا، دوسری یہ کہ نہ لائے۔ جو جانور نہ لایا وہ میقات سے عمرہ کا احرام باندھے، مکہ معظمہ میں آکر طواف و سعی کرے اور سر مونڈائے اب عمرہ سے فارغ ہوگیا اور طواف شروع کرتے ہی یعنی سنگِ اَسود کو بوسہ دیتے وقت لبیک ختم کر دے اب مکہ میں بغیر احرام رہے۔ آٹھویں ذی الحجہ کو مسجد الحرام شریف سے حج کا احرام باندھے اور حج کے تمام افعال بجا لائے مگر اس کے لیے طوافِ قدوم نہیں اور طوافِ زیارت میں یا حج کا احرام باندھنے کے بعد کسی طوافِ نفل میں رَمَل کرے اور اس کے بعد سعی کرے اور اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد طوافِ قدوم کرلیا ہے (اگرچہ اس کے لیے یہ طواف مسنون نہ تھا) اور اس کے بعد سعی کرلی ہے تو اب طوافِ زیارت میں رَمَل نہیں، خواہ طوافِ قدوم میں رَمَل کیا ہو یا نہیں اور طوافِ زیارت کے بعداب سعی بھی نہیں، عمرہ سے فارغ ہو کر حلق بھی ضروری نہیں۔ اُسے یہ بھی اختیار ہے کہ سر نہ مونڈائے بدستور مُحرم رہے۔

یوہیں مکہ معظمہ ہی میں رہنا اُسے ضرور نہیں، چاہے وہاں رہے یا وطن کے سوا کہیں اور مگر جہاں رہے وہاں والے جہاں سے احرام باندھتے ہیں یہ بھی وہیں سے احرام باندھے، اگر مکہ مکرمہ میں ہے تو یہاں والوں کی طرح احرام باندھے اور اگر حرم سے باہر اور میقات کے اندر ہے تو حِل میں احرام باندھے اور میقات سے بھی باہرہو گیاتو میقات سے باندھے۔ یہ اُس صورت میں ہے، جب کہ کسی اور غرض سے حرم یا میقات سے باہر جانا ہو اور اگر احرام باندھنے کے لیے حرم سے باہر گیا تو اُس پر دَم واجب ہے مگر جب کہ وقوف سے پہلے مکہ میں آگیا تو ساقط ہوگیا اور مکہ معظمہ میں رہا تو حرم میں احرام باندھے اور بہتر یہ ہے کہ مکہ ّ معظمہ میں ہو اور اس سے بہتر یہ کہ مسجد حرم میں ہو اور سب سے بہتر یہ کہ حطیم شریف میں ہو۔ یوہیں آٹھویں کو احرام باندھنا ضرور نہیں، نویں کو بھی ہوسکتا ہے اور آٹھویں سے پہلے بھی بلکہ یہ افضل ہے۔ تمتع کرنے والے پر واجب ہے کہ دسویں تاریخ کو شکرانہ میں قربانی کرے، اس کے بعد سر مونڈائے۔ اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو تو اُسی طرح روزے رکھے جوقِران والے کے لیے ہیں۔[4] (جوہرہ، عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۳: اگر اپنے ساتھ جانور لے جائے تو احرام باندھ کر لے چلے اور کھینچ کر لے جانے سے ہانکنا افضل ہے۔ ہاں اگر پیچھے سے ہانکنے سے نہیں چلتا تو آگے سے کھینچے اور اُس کے گلے میں ہار ڈال دے کہ لوگ سمجھیں یہ حرم میں قربانی کو جاتا ہے، اور ہار ڈالنا جُھول ڈالنے سے بہتر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جانور کے کوہان میں دہنی یا بائیں جانب خفیف سا شگاف کر دے کہ گوشت تک نہ پہنچے، اب مکہ معظمہ میں پہنچ کرعمرہ کرے اور عمرہ سے فارغ ہو کر بھی مُحرم رہے جب تک قربانی نہ کرلے۔ اُسے سر مونڈانا جائز نہیں جب تک قربانی نہ کرلے ورنہ دَم لازم آئے گا پھر وہ تمام افعال کرے جو اس کے لیے بتائے گئے کہ جانور نہ لایا تھا اور دسویں تاریخ کو رَمی کرکے سر مونڈائے اب دونوں احرام سے ایک ساتھ فارغ ہوگیا۔ [5] (درمختار)

مسئلہ ۴: جو جانور لایا اور جو نہ لایا دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جانور نہ لایا اور عمرہ کے بعد احرام کھول ڈالا اب حج کا احرام باندھا اور کوئی جنایت واقع ہوئی تو جرمانہ مثل مُفرِد کے ہے اور وہ احرام باقی تھا تو جرمانہ قارِن کی مثل ہے اور جانور لایا ہے تو بہر حال قارِ ن کی مثل ہے۔[6] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵: میقات کے اندر والوں کے لیے قِران وتَمتّع نہیں، اگر کریں تو دَم دیں۔[7] (درمختار)

مسئلہ ۶: جو جانور لایا ہے اُسے روزہ رکھنا کافی نہ ہوگا اگرچہ نادار ہو۔[8] (درمختار)

مسئلہ ۷: جانور نہیں لے گیا اور عمرہ کرکے گھر چلا آیا تو یہ اِلمام صحیح ہے اس کا تمتع جاتا رہا، اب حج کریگا تو مُفرِد ہے اور جانور لے گیا ہے اورعمرہ کرکے گھر واپس آیا پھرمُحرِم رہا اور حج کو گیا تو یہ اِلمام صحیح نہیں، لہٰذا اس کا تمتّع باقی ہے۔ یوہیں اگر گھر نہ آیا عمرہ کرکے کہیں اور چلا گیا تو تمتّع نہ گیا۔ [9] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۸: تَمتّع کرنے والے نے حج یا عمرہ فاسد کر دیا تو اس کی قضا دے اور جرمانہ میں دَم اور تمتع کی قربانی اُس کے ذمہ نہیں کہ تمتع رہا ہی نہیں۔ [10] (درمختار)

مسئلہ ۹: تمتّع کے لیے یہ ضرور نہیں کہ حج و عمرہ دونوں ایک ہی کی طرف سے ہوں بلکہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک اپنی طرف سے ہو اور دوسرا کسی اور کی جانب سے یا ایک شخص نے اُسے حج کا حکم دیا اور دوسرے نے عمرہ کا اور دونوں نے تَمتّع کی اجازت دیدی تو کرسکتا ہے مگر قربانی خود اس کے ذمہ ہے اور اگر نادار ہے تو روزے رکھے۔ (منسک)

مسئلہ ۱۰: حج کے مہینے میں عمرہ کیا مگر اُسے فاسد کردیا پھر گھر واپس گیا پھر آکر عمرہ کی قضا کی اور اُسی سال حج کیا تو یہ تمتع ہو گیا اور اگر مکہ ہی میں رہ گیا یا مکہ سے چلا گیا مگر میقات کے اندر رہا یا میقات سے بھی باہر ہوگیا مگر گھر نہ گیا اور آکر عمرہ کی قضا کی اور اسی سال حج بھی کیا تو ان سب صورتوں میں تمتع نہ ہوا۔ (جوہرہ) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۵۸ تا ۱۱۶۱)


[1] ۔۔۔۔۔۔ پ۲، البقرہ: ۱۹۶۔

[2] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۰. والفتاوی الھندیۃ”، کتاب المناسک، الباب السابع فی القران والتمتمع، ج۱، ص۲۴۰.

[3] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۰،۶۴۳.

[4] ۔۔۔۔۔۔”الجوھرۃ النیرۃ”، کتاب الحج، باب التمتع، ص۲۱۲۔ ۲۱۳.والفتاوی الھندیۃ”، کتاب المناسک، الباب السابع في القران و التمتع، ج۱، ص۲۳۸۔۲۳۹.

[5] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۵.

[6] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۵.

[7] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۶.

[8] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۸.

[9] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۴۸، وغیرہ.

[10] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الحج، باب التمتع، ج۳، ص۶۵۰.

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے