سوال: اگر کوئی شخص اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دونوں ایک ہی شخصیت ہیں اور یہ دعوی کرتا ہے کہ میں ہی وہ دونوں شخصیت ہوں اور ابن ماجہ سے ایک حدیث بھی پیش کرتا ہے کہ (لا مھدی الا عیسی)(مہدی،عیسی ہی ہیں۔)
جواب: یہاں دوباتیں ہیں ،ایک ایسادعوی کرنے والے کاحکم اوردوسرااس روایت کی حیثیت ،نیچے دونوں کی تفصیل ذکرکی جاتی ہے :
(الف)دریافت کی گئی صورت میں اگر وہ شخص واقعی یہ عقیدہ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے تو ایسا شخص کافر و مرتد ہے کہ غیر نبی کو نبی کہنا کفر ہے۔اوراس میں عقیدہ ختم نبوت کابھی انکارہے ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں ،آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے بعدکوئی نیانبی نہیں آئےگا۔تواس شخص کااپنے کونبی کہنااس عقیدہ کی واضح خلاف ورزی ہے ۔
لہذا ایسا شخص جب تک اپنے کفریہ عقائد سے توبہ نہ کر لے اس کے ساتھ سلام ،کلام ،میل جول وغیرہ تعلقات رکھناجائزنہیں ۔ اسی طرح اس کی بیعت کرنا بھی باطل ہے کہ وہ شخص جب سرے سے مسلمان ہی نہیں ہے تو اس کی بیعت ہی نہیں ہوسکتی۔بلکہ اس کے ان کفریات پرمطلع ہوکراسے مسلمان سمجھنے والایااس کے کفرمیں شک کرنے والا خوددائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ﴾ترجمہ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(القرآن الکریم ،پارہ 22 ،سورۃ الاحزاب ،آیت40)
سنن ترمذی ،سنن ابوداؤد،مسند احمد ،شرح مشکل الاثار،صحیح ابن حبان اورالمعجم الاوسط وغیرہ کثیر کتب حدیث میں یہ حدیث پاک مروی ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا،(والنظم للترمذی):’’أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ ترجمہ: میں خاتم النبیین یعنی سب سے آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔(سنن ترمذی، ابواب الفتن، جلد4، صفحہ 499، مطبوعہ مصر)
قادیانی نے اپنی لیے نبوت کادعوی کیاتھااس کے متعلق امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : "قادیانی تو ایسا مرتد ہے جس کی نسبت تمام علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے کہ : من شک فی کفرہ فقد کفر “ جس نے اس کے کفر میں شک کیا وہ بھی کافر ہوگیا۔”(فتاوی رضویہ،ج 21،ص 280،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
(ب)اورجہاں تک تعلق ہے ابن ماجہ کی حدیث(لا المھدی الا عیسی) تو محدثین کرام رحمھم اللہ السلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے مقابلے میں امام مھدی اور حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی آمد اور حضرت عیسی کا امام مھدی کی اقتداء میں نماز پڑھنے والی روایات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں چنانچہ مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں:” قال أبو الحسن الخسعي الآبدي في مناقب الشافعي تواترت الأخبار بأن المهدي من هذه الأمة وأن عيسى يصلي خلفه ذكر ذلك ردا للحديث الذي أخرجه بن ماجه عن أنس وفيه ولا مهدي إلا عيسى”ترجمہ: ابو الحسن الخسعی مناقب الشافعی میں فرماتے ہیں کہ:اس بارے میں اخبار تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہیں کہ امام مھدی اس امت سے ہوں گے اور عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے،انہوں نے اس حدیث کا جواب دینے کے لیے یہ بات ذکر کی جس کو ابن ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جس میں ہے کہ مھدی، عیسی ہی ہیں۔(فتح الباری لابن حجر،جلد6،صفحہ494،دار المعرفہ ،بیروت)
اسی طرح حضرت علامہ ملا علی قاری (متوفی1014ھ) فرماتے ہیں:”اعلم أن حديث: لا مهدي إلا عيسى بن مريم ضعيف باتفاق المحدثين”ترجمہ:جان لو کہ محدثین کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ حدیث پاک (لا مھدی الا عیسی بن مریم)ضعیف ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،جلد8،صفحہ3448،دار الفکر ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم