اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا کیسا

   سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کو ” حاضر و ناظر “ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟

 
 

   جواب:  بے شک ہر چیز اللہ عزوجل پر عیاں ہے اور وہ ہر چیز کو دیکھتا بھی ہے ، لیکن  اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ” حاضر و ناظر  “کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے ، کیونکہ ایک تو یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ ان لفظو ں کے عربی لغت میں جو معانی بیان کیے گئے ہیں ، وہ  اللہ عزوجل کی شان کے لائق نہیں ہیں ۔ اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ ان  الفاظ کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال منع ہے ، لہٰذا اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ”حاضر و ناظر“ کے بجائے ” شہید و بصیر“ کہاجائے ۔ جیسا کہ اللہ عزوجل نے خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :﴿ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴾ترجمہ کنز الایمان:بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔(سورۃ حج ، آیت نمبر 17)

     ایک اور جگہ ارشادِباری تعالیٰ ہے : ﴿ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴾ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ سنتا ، دیکھتا ہے۔(سورۃ حج ، آیت نمبر 75)

     مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :”حاضر و ناظر کے جو معنی لغت میں ہیں ، ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے ۔”حاضر “کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجداور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں: نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ، جو چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو ، اسے حاضر کہتے ہیں اور ” ناظر “ کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی ، جبکہ نظر کے معنی ”کسی امر میں تفکر و تدبر کرنا ، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا“لکھے ہیں ۔ ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے ۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جا سکتا ۔ اسی لیے اسماء حُسنیٰ میں حاضر و ناظر بطور اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین یا ائمہ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیے ہیں ۔ “ (وقار الفتاوی، جلد1، صفحہ66، مطبوعہ کراچی)

     فتاوی فیض الرسول میں ہے :”اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے ، تو یہ عقیدہ حق ہے ، مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظِ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کالفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے ، لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے ، تو وہ کفر نہ ہوگا۔ “(فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ3، مطبوعہ لاھور)

     اور مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :”اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں ، مگر اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے اسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق  باری تعالیٰ پر کیا ہے ، اسی کا اطلاق درست اور جن اسما کا اطلاق نہیں فرمایا ، ان سے احتراز چاہیے۔“(فتاوی شارح بخاری، جلد1، صفحہ305، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے