گائے کی زکاۃ کا بیان
ابو داود و ترمذی و نسائی و دارمی معاذ بن جبل رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہ سے راوی، کہ جب حضور اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو یہ فرمایا: کہ ”ہر تیس ۳۰ گائے سے ایک تبیع یا تبیعہ لیں اور ہر چالیس ۴۰ میں ایک مسن یا مسنّہ۔” [1]اور اسی کے مثل ابو داود کی دوسری روایت امیر المومنین مولیٰ علی کَرَّمَ اﷲُ تَعَالٰی وَجْہَہ سے ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ کام کرنے والے جانور کی زکاۃ نہیں۔[2]
مسئلہ ۱: تیس سے کم گائیں ہوں تو زکاۃ واجب نہیں، جب تیس ۳۰ پوری ہوں تو ان کی زکاۃ ایک تبیع یعنی سال بھر کا بچھڑا یا تبیعہ یعنی سال بھر کی بچھیا ہے اور چالیس ۴۰ ہوں تو ایک مسن یعنی دو سال کا بچھڑا یا مُسِنّہ یعنی دو سال کی بچھیا، انسٹھ ۵۹ تک یہی حکم ہے۔ پھر ساٹھ ۶۰ میں دو تبیع یا تبیعہ پھر ہر تیس ۳۰ میں ایک تبیع یا تبیعہ اور ہر چالیس ۴۰ میں ایک مُسِنّ یا مُسِنّہ، مثلاً ستّر ۷۰ میں ایک تبیع اور ایک مُسِنّ اور اسّی ۸۰ میں دو مُسِنّ [3] ، وعلیٰ ہذا القیاس۔ اور جس جگہ تیس ۳۰ اور چالیس ۴۰ دونوں ہو سکتے ہوں وہاں، اختیار ہے کہ تبیع زکاۃ میں دیں یا مُسِنّ، مثلاً ایک سو بیس ۱۲۰ میں اختیار ہے کہ چار تبیع دیں یا تین مُسِنّ۔ [4] (عامہ کتب)ّ
مسئلہ ۲: بھینس گائے کے حکم میں ہے اور اگر گائے بھینس دونوں ہوں تو زکاۃ میں ملا دی جائیں گی، مثلاً بیس ۲۰ گائے ہیں اور دس ۱۰ بھینسیں تو زکاۃ واجب ہوگئی اور زکاۃ میں اس کا بچہ لیا جائے جو زیادہ ہو یعنی گائیں زیادہ ہوں تو گائے کا بچہ اور بھینسیں زیادہ ہوں تو بھینس کا اور اگر کوئی زیادہ نہ ہو تو زکاۃ میں وہ لیں جو اعلیٰ سے کم ہو اور ادنیٰ سے اچھا۔ [5] (عالمگیری)
مسئلہ ۳: گائے بھینس کی زکاۃ میں اختیار ہے کہ نر لیا جائے یا مادہ، مگر افضل یہ ہے کہ گائیں زیادہ ہوں تو بچھیا اور نر زیادہ ہوں تو بچھڑا۔ [6](عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۸۹۵، ۸۹۶)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”سنن أبي داود”، کتاب الزکاۃ، باب في زکاۃ السائمۃ، الحدیث: ۱۵۷۶، ج۲، ص۱۴۵.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ”سنن أبي داود”، کتاب الزکاۃ، باب في زکاۃ السائمۃ، الحدیث: ۱۵۷۲، ج۲، ص۱۴۲.
[3] ۔۔۔۔۔۔ مزید آسانی کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ کیجئے: گائے کا نصاب
تعداد جن پر زکاۃ واجب ہے شرح زکاۃ
۳۰ سے ۳۹ تک ایک سال کا بچھڑا یا بچھیا
[4] ۔۔۔۔۔۔ ۴۰ سے ۵۹ تک پورے دو سال کا بچھڑا یا بچھیا
۶۰ سے ۶۹ تک ایک ایک سال کے دو بچھڑے یا بچھیاں
۷۰ سے ۷۹ تک ایک سال کا بچھڑایا پچھیا اورایک دو سال کا بچھڑ
۸۰ سے ۸۹ تک دو سال کے دو بچھڑے
”الدرالمختار”، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ البقر، ج۳، ص۲۴۱.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب الثانی في صدقۃ السوائم، الفصل الثالث، ج۱، ص۱۷۸.
[6] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.