تعارف:
العطایہ النبویہ فی الفتاوی الرضویہ چودھویں صدی کے مجدد امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جنہیں علما ئے حق مجتہد فی المسائل کہتے ہیں ۔فتاویٰ رضویہ (جدید)۳۰ جلدوں، ۲۱۶۵۶ صفحات، ۶۸۴۷ سوال و جواب ۲۰۶ رسائل اور سینکڑوں مسائل پر مشتمل ہے۔
خصوصیات:
۱۔ فتاویٰ رضویہ فصاحت و بلاغت کا بے مثال نمونہ ہے اس کے خطبے میں حمد بھی ہے نعت بھی، مدح ،صحابہ و اہل بیت بھی، ذات اور آل واصحاب پر درود بھی، نیز 90 چیزوں کے نام 80 کتابوں کے نام، اور 3 فقہی اصطلاحیں مذکور ہیں اور چند عقائد کی وضاحت ہے جس کتا ب کے خطبے کا یہ عالم ہے اس کے فتاویٰ کا عالم کیا ہوگا۔
۲۔ فتاویٰ رضویہ میں دلائل کا سمندر موجزن ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حنفی فقہ کو دلائل سے آراستہ کیا ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سوال کے جواب کے بعد اس پر قرآنی آیات پھر احادیث نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پھر علما کے اقوال بطور دلائل بیان فرماتے ہیں، حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر کسی صاحب کو دلائل کا شوق ہو تو فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرے کہ اس میں ہر مسئلہ کی ایسی تحقیق کی گئی ہے جس کی نظیر آج دنیا میں موجود نہیں اور ایسے مسائل ملیں گے جن سے علما کے کان بھی آشنا نہیں۔ (بہار شریعت حصہ ۱،۲ /۲۸۰)
علم کا چشمہ ہوا ہے موجزن تحریر میں
جب قلم تو نے اٹھایا اے امام احمد رضا
۳۔ جیسا سوال کرنے والے کا مزاج ، اسی کے حساب سے جواب ہے، اگر سوال مختصر جواب کا تقاضا کرے تو جواب مختصر ہے، لیکن اکثر فتاویٰ تفصیلی جواب پر مشتمل ہیں اگر سوال کے جواب کی کئی صورتیں بنتی ہوں تو جواب میں ان تمام سورتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
۴۔ اس میں ایک سے زائد زبانوں میں فتاویٰ جات موجود ہیں جس زبان میں سوال ہے اسی زبان میں جواب ہے پھر چاہے وہ زبان اردو ہو یا ہندی، عربی ہویا فارسی، اگر سوال نثر میں ہے تو جواب بھی نثر میں ہے، اگر سوال نظم میں ہے توجواب بھی نظم میں ہے۔
۵۔ فتاویٰ رضویہ میں صرف سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا، بلکہ ساتھ میں نیکی کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
فتاویٰ رضویہ کی چند خصوصیات
۶۔ فتاویٰ رضویہ میں علم کلام ، علم حدیث و اصول و حدیث، فقہ و اصول فقہ کے علاوہ طب، نجوم، تاریخ، ہیئت ، فلسفہ اور اس جیسے کئی علوم جدیدہ و قدیمہ کے متعلق فتاویٰ جات موجود ہیں(ماہنامہ فیضان ِ مدینہ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ ، صفحہ نمبر۲۴)
۷۔ فتاویٰ رضویہ میں موجود ہر رسالہ کا نام تاریخی ہے جس سے علم ابجد کے ذریعے ا س رسالہ کا کا سن تحریر نکالا جاسکتا ہے۔( ماہنامہ فیضان ِ مدینہ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ ، صفحہ نمبر۲۴)
۹۔ فتاویٰ رضویہ میں موجود کئی فتاویٰ جات علما و مفتیان کرام کے پوچھے ہوئے سوالوں پرمشتمل ہیں، نیز بیشتر مفتیان کرام فتویٰ دینے کے لیے فتاویٰ رضویہ سے مدد لیتے ہیں۔
۱۰۔ فتاویٰ رضویہ دیکھ کر علما کی عقل حیران رہ جاتی ہے حتی کہ مخالفین بھی سرجھکاتے نظر آتے ہیں،
حرم شریف کی لائبریری کے محافظ سید اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ نے جب چند عربی فتاویٰ کا مطالعہ فرمایا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: میں سچ کہتا ہوں اگر آپ کے یہ فتاویٰ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دیکھتے توان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور آپ کو اپنے اصحاب میں شامل فرمالیتے۔
کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دیئے۔
علمائے حق کی عقل تو حیران ہے آج بھی
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں