سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ منفرد شخص ظہر کی فرض نمازمیں قعدہ اولی میں مکمل تشہد پڑھنے کے بعد ، بھولے سے دوبارہ کتنا تشہد پڑھے گا، تو سجدہ سہو لازم ہو گا ؟شرعی رہنمائی فرمادیں۔
جواب: چار رکعتی فرض نماز کےقعدہ اولی میں تشہد پڑھنے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونا واجب ہے، اگر ایک رکن کی مقدار تاخیر کی تو سجدہ سہو لازم ہوگااور سجدہ سہو لازم ہونے میں جب رکن بولا جاتا ہے ، تو اس سے مراد تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار ہوتی ہے، لہذا بیان کردہ صورت میں قعدہ اولی میں تشہد مکمل کرنے کے بعد ایک رکن یعنی سنت کے مطابق تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار تشہد پڑھا، تو اس سے تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہو گا۔
تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہونے کے متعلق نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:”یجب( القیام الی) الرکعۃ( الثالثۃ من غیر تراخ بعد) قراءۃ (التشھد) حتی لو زاد علیہ بمقدار اداء رکن ساھیا یسجد للسھو لتاخیر واجب القیام للثالثۃ“ترجمہ:تشہد پڑھنے کے بعد بغیر تاخیر تیسری رکعت کی طرف اٹھنا واجب ہے، اگر کسی نے بھولے سے تشہد پر ایک رکن کی مقدار زیادتی کی، تو تیسری رکعت کے لیے ا ٹھنے کا واجب مؤخر ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا ۔(نور الایضاح مع مراقی الفلاح، صفحہ139، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
”ساھیا “کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:”احترز بہ عن العمد فان الصلاۃ تکون بہ مکروھۃ تحریما“ترجمہ:بھولنے کی قید سے عمدا کو نکال دیا، کیونکہ جان بوجھ کر ایسا کرنے سے نماز مکروہ تحریمی ہو گی۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،صفحہ 251، مطبوعہ کوئٹہ)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:”الزیادۃ علی التشھد فی القعود الاول غیر مشروعۃ “ترجمہ: قعدہ اولی میں تشہد پر زیادتی کی شرعی طور پر اجازت نہیں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد2، صفحہ 270، مطبوعہ کوئٹہ)
قعدہ اولی میں تشہد پر زیادتی کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہو گا، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ ، مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں :”تیسری کے قیام میں تاخیر ہوئی، تو اگر اتنی دیر سکوت کیا، جب بھی سجدہ سہو واجب ہے۔“(ملتقطا از بھار شریعت، جلد1،حصہ 4، صفحہ 713، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سجدہ سہو میں رکن کی مقدار سے کیا مراد ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن يعتبر الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات“ یعنی علماء نے رکن کی مقدار بیان نہیں کی اور قیاس یہی ہے کہ اس میں سنت کے ساتھ رکن کا اعتبار کیا جائے اور یہ تین تسبیح کی مقدار ہے۔ (حاشیہ طحطاوی علی المراقی، صفحہ474، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر ایک بار بھی بقدرادائے رکن مع سنت یعنی تین بار سبحان اﷲ کہنے کی مقدار تک تامل کیا،سجدہ سہو واجب ہوا۔“(فتاوی رضویہ، جلد8،صفحہ178،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مسبوق سے اپنی نماز اداکرتے ہوئے واجب چھوٹ جائے تو سجدہ سہو کاحکم
فتاوی بحر العلوم میں مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اور باب سہو میں تاخیر طویل حسب بیان علامہ(شامی)بھی مقدار ادائے رکن ہے ،اس کو جی چاہے تین بار سبحان اللہ کہنے سےتعبیر کریں یا ایک آیت کی مقدار سے بیان کریں یاالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ لینے کی مقدار سے۔“(فتاوی بحر العلوم، جلد1، صفحہ462، شبیر برادرز، لاھور)
مزید ایک مقام پرمفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”کسی رکن کی تاخیر پر سجدہ سہو ہوتا ہے، مثلاکھڑا ہونا تھا بیٹھ گیا، تو کھڑے ہونے میں تاخیر ہوئی بیٹھنا تھا کھڑا ہو گیااور پھر بیٹھا، تو بیٹھنے میں تاخیر ہوئی یا بیٹھنا متروک ہوا، ایسی صورت میں سجدہ سہو ہے اور تاخیر کا فیصلہ وہی تین تسبیح کی مقدار سے ہو گا۔“(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ65، شبیر برادرز، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم