سوال: زید نے فجر کی سنتوں کی نیت باندھی پھر دورانِ نماز ہی سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوگیا، اب کیا زید جماعت کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے ان سنتوں کی قضا کرسکتا ہے؟
جواب: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر نمازی نے فجر کی سنتیں شروع کرکے توڑدی ہوں تو فرض پڑھنے کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے ان سنتوں کی قضا کرنا ، جائز نہیں کہ یہ قضا نماز واجب لغیرہ ہے جو ایک اعتبار سے نفل کے حکم سے ملحق ہے، اور نمازِ فجر کے بعد کسی بھی قسم کی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں۔
فجر کی سنتیں فاسد کردیں تو ان کی قضا فرض کے بعد جائز نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”لو أفسد سنة الفجر ثم قضاها بعد صلاة الفجر لم يجزه كذا في محيط السرخسي“ یعنی نمازی نے فجر کی سنتیں شروع کرکے فاسد کردیں پھر فجر کی نماز کے بعد ان کی قضا کی، تو یہ جائز نہیں، ایسا محیط سرخسی میں مذکور ہے۔( الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقيت، ج 01، ص 53، مطبوعہ پشاور)
بحر الرائق میں ہے:”لو أفسد سنة الفجر ثم قضاها بعد صلاة الفجر فإنه لا يجوز على الاصح۔۔۔۔۔ وفي شرح المجمع لابن الملك: ما قاله بعض الفقهاء من أنه إذا أقيم للفجر وخاف رجل فوت الفرض يشرع في السنة فيقطعها فيقضيها قبل الطلوع مردود لكراهة قضاء التنفل الذي أفسده فيه على أن الامر بالشروع للقطع قبيح شرعا “ یعنی اگر نمازی نے فجر کی سنتیں شروع کرکے فاسد کردیں پھر نمازِ فجر کے بعد ان کی قضا کی تو اصح قول کے مطابق یہ عمل جائز نہیں ۔۔۔۔۔ شرح المجمع لابن الملک میں ہے کہ بعض فقہاء نے یہ فرمایا ہے کہ جب فجر کی جماعت شروع ہوجائے اور نمازی کو فرض چھوٹ جانے کا خوف ہو تو وہ سنتیں شروع کرکے توڑدے پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کی قضا کرلے تو یہ قول مردود ہے کہ فجر کے بعد اس نفل کی قضاء بھی مکروہ ہے جسے شروع کرکے توڑ دیا ہو نیز سنتوں کو شروع کرکے توڑنے کا حکم دینا شرعاً قبیح ہے۔ ( البحر الرائق ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 265، دار الکتاب الاسلامی ، ملتقطاً)
فجر اور عصر کے بعد واجب لغیرہ نماز پڑھنا جائز نہیں کہ یہ نفل ہی کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ تبیین الحقائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے : ” كل ما كان واجبا لغيره كالمنذور وركعتي الطواف والذي شرع فيه ثم أفسده ملحق بالنفل حتى لا يصليها في هذين الوقتين؛ لأن وجوبها بسبب من جهته فلا يخرج من أن يكون نفلا في حق الوقت“ یعنی ہر واجب لغیرہ جیسے منت مانی ہوئی نماز، طواف کی دو رکعت، وہ نفل نماز جسے شروع کرکے فاسد کردیا ہو یہ سب نفل سے ملحق ہیں، حتی کہ یہ نمازیں ان دو اوقات (بعد طلوعِ فجر و نمازِ عصر) نہیں پڑھ سکتا ، کیونکہ ان(نوافل) کا وجوب بندے کی وجہ سے ہے لہذا یہ نمازیں وقت کے اعتبار سے نفل ہی رہیں گی ۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 87، مطبوعہ ملتان)
تنویر الابصار اور الدر المختار میں ہے: ’’(وکرہ نفل) قصداً ولو تحیۃ المسجد (وکل ما کان واجباً ۔۔۔ لغیرہ) وھو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور ورکعتی طواف وسجدتی سھو والذی شرع فیہ۔۔۔ ثم افسدہ و) لو سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر وعصر) ‘‘ ترجمہ: بعد فجر و عصر قصداً نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگرچہ تحیۃ المسجد ہو، یونہی ہر واجب لغیرہ یعنی جس نماز کا وجوب بندےکے فعل پر موقوف ہو، جیسے منت، طواف کی رکعتیں ، سجدہ سہو اور وہ نفل نماز جسے شروع کر کے توڑ دیا ہو، اگرچہ سنت فجر ہو ۔(تنویر الابصار مع الدر المختار ، کتاب الصلوۃ، ج 02، ص 44، مطبوعہ پشاور، ملتقطا )
فتاوٰی رضویہ میں ہے :”طلوع سے پہلے (سنتِ فجر)قضاکرنے میں فرض فجر کے بعد نوافل کاپڑھنا ہے اور یہ جائز نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 07، ص 425، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)
بہارِ شریعت میں ہے:”فرض سے پیشتر سنت فجر شروع کرکے فاسد کر دی تھی اور اب فرض کے بعد اس کی قضا پڑھنا چاہتا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 456، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم