کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے میں ایک منٹ ہی باقی رہ گیا ہو، تو کیا اس وقت نمازِ تہجد ادا کرسکتے ہیں، جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہو کہ ایک منٹ میں فقط ایک ہی رکعت ادا ہوسکے گی۔ کیا اس صورت میں وہ نمازِ تہجد ادا ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نمازِ فجر، جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں میں اصول یہ ہے کہ نمازی نے اگر وقت کے اندر تکبیرِ تحریمہ کہہ لی تو وہ نماز درست ادا ہوگی، لہذا نمازِ تہجد کی درست ادائیگی کے لیے صرف اتنا ضروری ہے کہ نمازی نے فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلےپہلے تہجد کی نیت باندھ لی ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں نمازِ فجر کا وقت ختم ہونے سے ایک منٹ پہلے بھی نمازِ تہجد ادا کرسکتے ہیں۔
فجر، جمعہ اور عیدین کے علاوہ کسی بھی نماز کو وقت میں شروع کرلیا تو وہ نماز ادا ہوجائے گی۔ جیسا کہ درِ مختار میں ہے: ”وبالتحريمة فقط بالوقت يكون أداء عندنا “یعنی ہمارے نزدیک وقت میں تکبیرِ تحریمہ کہہ لینے سے نماز ادا ہو جاتی ہے۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الصلاۃ ، ج 02 ، ص628، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” فجر وجمعہ وعیدین سلام سے پہلے خروج وقت سے باطل ہوجاتی ہیں بخلاف باقی صلوات کہ ان میں وقت کے اندر تحریمہ بندھ جانا کافی ہے۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج03،ص439، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:” وقت میں اگر تحریمہ باندھ لیا ، تو نماز قضا نہ ہوئی ، بلکہ ادا ہے، مگر نمازِ فجر و جمعہ و عیدین کہ ان میں سلام سے پہلے بھی اگر وقت نکل گیا ، نماز جاتی رہی۔ “(بہار شریعت، ج 01، ص 701، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
دورانِ نماز اگر وقت ختم ہوجائے، تو وہ نماز ادا ہوگی۔ جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے: ”لو شرع في الوقتية عند الضيق ثم خرج الوقت في خلالها لم تفسد“ترجمہ: ”اگر تنگ ( یعنی آخری ) وقت میں وقتی نماز شروع کی اور اسی دوران نماز کا وقت نکل گیا ، تو وہ نماز فاسد نہیں ہوگی۔ “(مجمع الانھر ، کتاب الصلوٰۃ ، ج 01 ، ص216، مطبوعہ کوئٹہ)
لڑکا و لڑکی کا پسند کی شادی( نکاح )کرنا کیسا
نفل نماز کے دوران فجر کا وقت شروع ہوجائے تو اس سے متعلق تبیین الحقائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے : ”لو شرع فی النفل قبل طلوع الفجر ثم طلع فالاصح انہ لا یقوم عن سنۃ الفجر“ یعنی اگر کسی نے طلوعِ فجر سے پہلے نفل نماز شروع کی پھر دورانِ نماز فجر طلوع ہوگئی تو اصح قول کے مطابق اس کی وہ نفل نماز سنتِ فجر کے قائم مقام نہ ہوگی۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 87، مطبوعہ ملتان)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:”اگر کوئی شخص طلوعِ فجر سے پیشتر نماز نفل پڑھ رہا تھا، ایک رکعت پڑھ چکا تھا کہ فجر طلوع کر آئی تو دوسری بھی پڑھ کر پوری کرلے اور یہ دونوں رکعتیں سنتِ فجر کے قائم مقام نہیں ہوسکتیں۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 455، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تہجد کا وقت طلوعِ فجر تک ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”نمازِ تہجد وہ نفل کہ بعد فرضِ عشاء قدرے سوکر طلوعِ فجر سے پہلے پڑھے جائیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج07،ص409، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”نمازِ عشاء پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے ، تہجد کا وقت ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک ہے ۔“(فتاوٰی امجدیہ، ج01، ص 243، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم