سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا فجر کی نماز کے بعد نوافل پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: نماز فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، یونہی نمازِ عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے، نفل نماز پڑھنا جائز نہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بھی کچھ ایسے مواقع ہیں جہاں نفل پڑھنا منع ہیں جن کی تفصیل کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم یقول لا صلوٰۃ بعد الصبح حتیٰ ترتفع الشمس ولا صلوٰۃ بعد العصر حتیٰ تغیب الشمس“یعنی حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ صبح کی نماز کے بعد نماز نہیں یہاں تک کہ آفتاب بلند ہوجائے اور عصر کے فرض ادا کرنے کے بعد نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔(صحیح البخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ، ج 01، ص83-82،مطبوعہ کراچی )
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں نقل فرماتے ہیں:”حکی ابو الفتح الیعمری عن جماعۃ من السلف انھم قالوا: ان النھی عن الصلاۃ بعد الصبح و بعد العصر انما ھو اعلام بانھما لا یتطوع بعدھما۔“یعنی ابو الفتح یعمری علیہ الرحمہ نے سلف صالحین کی ایک جماعت سے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ فجر و عصرکے بعد نماز کی ممانعت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان نمازوں کے بعد کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے ۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 02، ص 78، مطبوعہ کراچی)
مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”بعدِ فجر اور بعدِ عصر نماز سے حدیث میں جب ممانعت ہے تو اس کا مورد کوئی نہ کوئی نماز ضرور ہونی چاہیے۔ ہم نے نوافل کو اس کا مورد بنانا زیادہ مناسب سمجھا۔“(نزھۃ القاری، ج 02، ص 271، فرید بک سٹال لاہور، ملخصاً)
فجر و عصر کے بعد نفل نماز کی کراہت کے متعلق ہدایہ، الاختیار وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ یکرہ ان یتنفل بعد الفجر حتیٰ تطلع الشمس و بعد العصر حتیٰ تغرب الشمس لما روی انہ علیہ الصلوٰۃ و السلام نھی عن ذلک ولا بأس بان یصلی فی ھذین الوقتین الفوائت و یسجد التلاوۃ و یصلی علی الجنازۃ لان الکراھۃ کانت لحق الفرض لیصیر الوقت کالمشغول بہ لا لمعنی فی الوقت فلم تظھر فی حق الفرائض و فیما وجب لعینہ کسجدۃ التلاوۃ“یعنی نمازِ فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے اور نمازِ عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ حدیثِ مبارک میں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ البتہ قضاء نماز پڑھنے، سجدہ تلاوت کرنے اور نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ کراہت تو فرض کے حق کی وجہ سے ہے تاکہ پورا وقت اسی فرض کے ساتھ مشغول رہے خاص اس وقت میں تو کوئی کراہت نہیں، لہذا فرائض اور واجب لعینہ جیساکہ سجدہ تلاوت کے حق میں یہ کراہت ظاہر نہ ہوگی۔(الھدایۃ مع البنایۃ، ج 02، ص 71-68، مطبوعہ ملتان، ملخصاً)
بہار شریعت میں ہے:”طلوع فجر سے طلوع آفتا ب تک کہ اس درمیان میں سوا دو رکعت سنت فجر کے کوئی نفل نماز جائز نہیں۔“ (بہار شریعت ، ج01، ص455، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نوٹ: مکروہ اوقات جاننے کےلیے بہارشریعت مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ جلد 01،صفحہ نمبر، 454 تا 457 کا مطالعہ فرمائیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم