ڈرائیور کو مالک کی نیت معلوم نہ ہو ،تو نماز پوری پڑھے گا یا قصر ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ میں سعودی شہر قصیم میں شیخ  کا ڈرائیور ہوں اور میری رہائش  بھی شیخ کے ساتھ  قصیم میں ہے۔ شیخ کا جب بھی سفر ہوتا ہے،تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس شہر جانا ہے اور کہاں کہاں رُکنا ہے لیکن اکثر یہ معلوم نہیں ہوتا ،کہ وہاں قیام کتنے دن کا ہے۔شیخ سے اس کی نیت پوچھنا ممکن نہیں۔ جب مجھے معلوم ہے کہ مجھے شرعی سفر سے زیادہ سفر کرنا ہے، لیکن وہاں پہنچ کرقیام کتنے دن کرنا  ہے ،یہ معلوم نہیں ،تو  اس صورت میں  مکمل نماز پڑھوں گایا قصر؟یا میں اپنی الگ سے نیت کروں ؟

جواب:  صورتِ مسئولہ میں  اصل اعتبار شیخ کی نیت کا ہے آپ کی اپنی نیت کا اعتبار نہیں  کہ  آپ اس کے ملازم ہونے کی وجہ سے احکامات ِ سفر میں اس کے تابع ہیں  ،لہذا شرعی مسافت پر جانے کے بعد   اگر شیخ نے پندرہ دن سے  زائد ٹھہرنے کی  نیت کر لی،  تو وہ مقیم ہو جائے گا اور اس کے تابع ہونے کی وجہ سے آپ  بھی  مقیم ہو جائیں گے، لیکن   یہ حکم اس وقت ہے کہ جب آپ کو اپنے شیخ کی  نیتِ اقامت کا علم ہو،ورنہ آپ شرعی مسافت پر جانے کے بعد مسافر ہی رہیں گے اور آپ  پر نماز میں قصر کرنا واجب ہوگا۔چنانچہ درمختار میں ہے:’’(والمعتبر نیۃ المتبوع )لانہ الاصل لا التابع (کامراۃ و عبد و جندی و اجیر  مع زوج و مولی و امیر و مستاجر)ملخصا‘‘ اعتبار متبوع کی نیت کا ہے ،نہ کہ تابع کی نیت کا ، جیسے عورت شوہر کے ساتھ غلام آقا کے ساتھ لشکر امیر کے ساتھ اور اجیر مستاجر کے ساتھ ہو ۔ (درمختار مع ردالمحتار،ج2،ص743،مطبوعہ کوئٹہ)

   عالمگیری میں  مزید ہے:’’ و کل من کان تبعاً لغیرہ  یلزمہ طاعتہ یصیر مقیماً باقامتہ و مسافراً  بنیتہ و خروجہ الی السفر  کذا فی محیط السرخسی۔ الاصل ان من یمکنہ الاقامۃ باختیارہ یصیر مقیماً  بنیۃ  نفسہ و من لا یمکنہ الاقامۃ باختیارہ لا یصیر مقیماً بنیۃ نفسہ حتی ان المراۃ اذا کانت مع زوجھا فی السفر و الرقیق مع مولاہ و التلمیذ مع استاذہ و الاجیر مع مستاجرہ  و الجندی مع امیرہ فھؤلاء لا یصیرون مقیمین بنیۃ انفسھم فی ظاھر الراویۃ کذا فی المحیط‘‘ ہر وہ شخص جو اپنے غیر کے تابع ہو، اس کو اس کی اطاعت لازم ہے اور وہ اس کے مقیم ہونے سے مقیم ہوگا اور اس کی نیت  اوراس کے  شرعی سفر پر نکلنے سے مسافر ہوگا  ، یونہی محیط سرخسی میں ہے :’’ اصل یہ ہے کہ جس کو اپنے اختیار سے اقامت پر قدرت ہو،تووہ اپنی نیت سے مقیم ہوگا اور جس کو اپنے اختیار سے اقامت پر قدرت نہ ہو، تو وہ اپنی نیت سے مقیم نہیں ہوگا، یہاں تک کہ عورت جب شوہر کے ساتھ سفر میں ہو اور غلام آقا کے ساتھ اور شاگرد اپنے استاذکے ساتھ اور اجیر اپنے مستاجر کے ساتھ اور لشکر اپنے امیر کے ساتھ ، ظاہر الروایہ کے مطابق یہ سب کے سب اپنی نیت سے مقیم نہیں ہوں گے ، اسی طرح محیط میں ہے ۔ (فتاوی عالمگیری،ج1،ص141،مطبوعہ کوئٹہ)

   شرعی مسافت پر پہنچ کر  ملازم کے مقیم ہونے کے لیے  مستاجر کی نیت کا علم ہونا ضروری ہے ، اس کے بارے میں  درمختار  میں ہے:’’  و لا بد من علم التابع بنیۃ المتبوع ، فلو نوی المتبوع الاقامۃ و لم یعلم التابع فھو مسافر حتی یعلم علی الاصح و فی الفیض : و بہ یفتی کما فی المحیط و غیرہ دفعاً للضرر عنہ‘‘تابع کو متبوع کی نیت کا علم ہونا ضروری ہے ، اگر متبوع نے اقامت کی نیت کی اور تابع کو علم نہ ہو، تو اصح قول کے مطابق وہ مسافر ہوگا جب تک اس کو نیت کا علم نہ ہو جائے ، اور فیض میں ہے  : اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے جیساکہ محیط اور اس کے علاوہ میں ہے ، اس (تابع ) سے ضرر کو دور کرتے ہوئے ۔ (درمختار مع ردالمحتار،ج2،ص744،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:’’ قولہ:( دفعاً للضرر عنہ ) لانہ مامور بالقصر منھی عن الاتمام فکان مضطراً ، فلو صار فرضہ اربعاً  باقامۃ الاصل بلا علمہ لحقہ ضرر عظیم من جھۃ غیرہ بکل وجہ و ھو مدفوع شرعاً ‘‘شارح کا قول : اس سے ضرر کو دور کرتے ہوئے ، کیونکہ اس کو قصر کا حکم دیا گیا ہے اور مکمل نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ، تو یہ مجبور ہوگا ، اگر اس کے فرض اصل کے مقیم ہونے سے چار ہوجائیں بغیر علم کے ، تو اس کو ہر طرح سے  ایک بڑا ضرر لاحق ہوگا اپنے علاوہ کی طرف سے ، اور وہ شرعاً مدفوع ہے ۔ (ردالمحتار مع درالمختار،ج2،ص744،مطبوعہ کوئٹہ)

   یہ یاد رہے کہ مذکور بالا حکم تنخواہ دار ملازم کے لیے ہے،دِہاڑی دار ملازم کے لیے نہیں۔ دِہاڑی دار ملازم ہے، تو اس کی اپنی نیت کا اعتبار ہو گا ،چاہے مستاجر اسے مہینوں اپنے ساتھ رکھے کہ ہر دن گزرنے کے  ساتھ دِہاڑی دار اجیر کو اجارہ فسخ   کرنے کا اختیار حاصل  ہوتا ہے،اس لیے اس کی اپنی نیت معتبر ہو گی۔چنانچہ ردالمحتار میں ہے:’’ قولہ:(اجیر) ای: مشاھرۃ او مسانھۃ کما فی التاترخانیۃ، اما لو کان میاومۃ بان استاجرہ کل یوم بکذا فان لہ فسخھا اذا فرغ النھار ، فالعبرۃ لنیتہ‘‘ شارح  کا قول : اجیر یعنی جو ماہانہ یا سالانہ اجیر ہو جیساکہ تاتارخانیہ میں ہے ، بہرحال اگر یومیہ اجیر ہو اس طرح کہ اس کو ہر دن اتنے کے بدلے اجرت پر رکھا ہو تو جب دن مکمل ہوجائے،تو اس کو اجارہ فسخ  کرنے کا اختیار ہے ، اور ایسی صورت میں اعتبار اس اجیر کی نیت کا ہوگا۔(درمختار مع ردالمحتار،ج2،ص743،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے