موضوع : جرائم کی صورتِ حال پر ہمارے قومی رویے اور حقیقی حل (قسط : 2)
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ ربیع الآخر 1442ھ
جرائم میں کمی کے لئے مختلف جہتوں سے کام کرنا ہوگا۔ یہاں نہ تو صرف وعظ و نصیحت کام آئے گی اور نہ ہی صرف قانون کا ڈنڈا ہر چیز صحیح کردے گا۔ دونوں طریقوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ تربیت کا مطلب صرف مسجد و مدرسہ ہی نہیں ہے بلکہ جن ذرائع سے بھی لوگوں تک پیغام یا علم یا معلومات پہنچتی ہیں ان سب ذرائع کو بھی کما حقُّہ استعمال کرنا ہوگا۔ مثلاً اگر ہم اپنے ملک کے ٹی وی چینلز کی صورتِ حال دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ چند ایک مذہبی چینل ہیں جو وعظ و نصیحت ، شرم و حیا ، تعلیم و تربیت ، خوفِ خدا ، اصلاح و فلاح ، تقویٰ و دینداری ، حسنِ کردار ، بلندیِ اخلاق ، حقوقُ العباد ، دوسروں کا احترام اور خواتین کا خیال وغیرہا امور کا درس دیتے ہیں لیکن کیا تربیت کی ذمہ داری صرف مذہبی چینلز کی ہے ، آخر ان کے علاوہ چوبیس گھنٹے چیختے ، دھاڑتے ، للکارتے ، پکارتے ، لڑاتے بھڑاتے ، بھڑکاتے دنیاوی چینلز کیا کررہے ہیں؟ جو کررہے ہیں ، وہ غالباً سب کو معلوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بقیہ چینلز اور ان پر کام کرنے اور بے بہا تنخواہیں لینے والے حضرات کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ یقیناً ہے لیکن حال یہ ہے کہ وہاں الٹا شرم و حیا کے خلاف بھاشن دئیے جاتے اور دینی احکام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اگر معاشرے میں حقیقی بہتری لانی ہے تو ضروری ہے کہ تمام چینلز شرم و حیا ، حسنِ کردار اور خدا کی بندگی کے ساتھ ساتھ حقوقُ العباد کا درس دیں۔
تربیت کے ذرائع کما حقُّہ استعمال کرنے میں دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں وہ بھی پیسے کمانے سے کچھ آگے کی سوچیں اور طلباء کو تعلیم سے زیادہ تربیت دیں۔ آخر قوم کی اکثریت انہی اداروں میں دس سے سولہ سال تک تعلیم حاصل کرتی ہے ، وہاں کیوں تربیت نہیں ہوتی؟ وہاں جرائم ، کرپشن اور بدکرداری سے نفرت کیوں نہیں پیدا ہوتی؟ لہٰذا پہلا ضروری کام یہ ہے کہ تربیت کے تمام ادارے فعال کئے جائیں اور بگاڑ پیدا کرنے والے اسباب کا قلع قمع کیا جائے خواہ وہ بگاڑ کلچر ، تہذیب ، جدیدیت کے نام پر ہے یا آزادی و روشن خیال کے بھوت کی صورت میں۔
جرائم میں کمی کے لئے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر چیز کا حل وعظ و نصیحت نہیں ہوتا اور ہر چیز صرف تربیت سے ٹھیک نہیں ہو جاتی ، معاشرے اور قومیں ہر طرح کے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں خیر بھی ہوتا ہے اور شر بھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جنت و جہنم اوربشارت و وعید کے متعلق سینکڑوں آیات کے ساتھ ساتھ حدود کی صورت میں سزاؤں کے دائمی قوانین بھی عطا فرمائے ہیں کیونکہ قانون کی سختی اور سزاؤں پر عمل درآمد کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی رہتی ہے یہاں تک کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے بعد صحابہ کے زمانے کو بہترین زمانوں میں سے قرار دیا لیکن اُس خیرالقرون یعنی بہترین زمانے میں بھی سزائیں دی جاتی اور حدود قائم ہوتی تھیں۔ کیا صحابۂ کرام وعظ و نصیحت نہیں کرتے تھے؟ کیا مسجدیں آباد نہیں تھیں؟ کیا اس وقت دین سیکھنے کا رجحان نہیں تھا؟ سب کچھ تھا ، لیکن بات یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں کے معاشرے میں صرف تربیت سو فیصد نتیجہ نہیں دیتی۔
جدید زمانے کی مثال لینی ہو تو ترقی یافتہ ممالک دیکھ لیں۔ بظاہر یورپ میں تعلیم وتربیت کا بڑا شاندار نظام ہے ، تعلیم بڑی اعلیٰ ہے ، تربیت بڑی عمدہ ہے ، لوگ مہذب ، پڑھے لکھے اور ادب آداب سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ ہر شہری تعلیم یافتہ ہے کیونکہ تعلیم لازم ہے ، وغیرہا وغیرہا۔ لیکن اس ساری تعلیم ، تربیت ، تمیز ، تہذیب ، شائستگی ، آداب کے باوجود کیا ان ملکوں میں منشیات نہیں ہے؟ کیا وہاں اسلحہ نہیں ہے؟ کیا وہاں قتل نہیں ہوتے؟ کیا وہاں عورتوں پرتیزاب نہیں پھینکے جاتے؟ کیا وہاں دنیا میں سب سے زیادہ جبری زیادتیاں نہیں ہوتیں؟ کیا وہاں پولیس نہیں ہے؟ اگر تعلیم و تربیت ہی سے ہر طرف بہار آجاتی ہے تو ان ممالک میں پولیس کا تو محکمہ ہی ختم کر دینا چاہئے ، لیکن حیرت یہ ہے کہ اکثر ممالک میں ہم سے زیادہ پولیس ہے۔ ہمارے ہاں تو رونا ہی یہ ہوتا ہے کہ تھانوں کی نفری پوری نہیں۔
یونہی اگر تربیت سب کچھ ٹھیک کردیتی ہے تو یورپ ، امریکہ میں کورٹ کچہری تو نہیں ہونی چاہئیں ، ججز کی سیٹیں تو مستقل خالی رہنی چاہئیں کیونکہ جج تو اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے چوری ڈکیتی ، لوٹ مار ، غصب ، کرپشن ، ان میں فیصلہ کریں اور سزائیں دیں۔ یورپ ہو خواہ آسٹریلیا ، امریکہ ہو یا افریقہ ، وہاں جرائم بھی ہیں ، پولیس بھی ہے ، کچہریاں بھی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ تربیت حسنِ معاشرہ کی خِشتِ اول ہے اور بہت مؤثر و مفید ہوتی ہے ، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ سارے چور ، ڈاکو ، لٹیرے ، رشوت خور ، پاپی ، خونی ، بدکار اسی سے سدھر جائیں ، اس کا ریشو کم ہوتا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ تعلیم و تربیت ، وعظ و نصیحت کے ساتھ قانون کا کھڑا ہونا ضروری ہے۔
قانون پر عمل درآمد کے ساتھ یہ بات مزید ذہن میں رکھیںکہ صرف قانون اور ڈنڈے کے استعمال میں تربیت کی اہمیت سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا بلکہ تربیت بے حد ضروری ہے کیونکہ تنہا قانون بھی معاشرے کو نہیں سدھار سکتا ، قانون ظاہر کو بدلتا ہے ، اندر کو نہیں بدلتا۔ ایک آدمی کا گھرمیں بیوی کے ساتھ کیا رویہ ہے ، اپنے بچوں کے ساتھ کیا رویہ ہے ، یا بچوں کا اپنے ماں باپ کےساتھ کیا رویہ ہے؟ اس پر قانون کیا کرے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ قانون اور تربیت دونوں مل کر کام کرتے ہیں ، لہٰذا ہر چیز کو اس پہ ڈال دینا کہ جناب! اتنی مسجدیں ہیں ، اتنے مدرسے ہیں ، تو اتنے جرائم کیوں؟ معاشرہ اتنا خراب کیوں؟ جواب یہ ہے کہ جناب! جرائم قانون کا مسئلہ ہے۔ قانون اگر مجرموں کو عبرتناک سزائیں دے ، تو جرائم کم ہو جائیں گے ، لیکن جہاں مجرم کو معلوم ہے کہ میں پکڑا بھی گیا ، تو پیسہ دے کر تفتیشی افسر ، وکیل بلکہ اس سے آگے والے کو بھی خرید لوں گا تو وہاں پر سدھار کیسے آسکتا ہے؟ لہٰذا جو معاملہ قانون کا ہے ، اسے وعظ و نصیحت پر نہ ڈالا جائے۔ قرآن پاک نے قتل کے جرم پرجہنم کی شدید وعیدیں بیان کی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ قاتل کو بس وعظ و نصیحت کرتے رہنا بلکہ صاف صاف فرمایا کہ معاشروں کی زندگی اسی میں ہے کہ قصاص لیا جائے ، قتل کے بدلے قتل کی سزا ہو۔
لہٰذا جرائم کم کرنے ہیں تو اسلامی تعلیم و تربیت کا نظام نافذ کرنا ہوگا اور قانون پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد شروع کرنا ہوگا۔
دنیا چاند پر پہنچ گہی اور مولانا حضرات ابھی کہنا کیسا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی