قَسْوَت(دل کی سختی)
قسوت یعنی دل کی سختی کی تعریف:
’’موت و آخرت کو یاد نہ کرنے کے سبب دل کا سخت ہو جانا یا دل کا اس قدر سخت ہوجانا کہ استطاعت کے باوجود کسی مجبور شرعی کو بھی کھانا نہ کھلائے قسوت قلبی کہلاتا ہے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۳)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۲۲)) (پ۲۳، الزمر: ۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے اس جیسا ہو جائے گا جو سنگ دل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یادِ خدا کی طرف سے سخت ہو گئے ہیں وہ کھلی گمراہی میں ہیں۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’نفس جب خبیث ہوتا ہے تو قبولِ حق سے اس کو بہت دوری ہوجاتی ہے اور ذکر اللہ کے سننے سے اس کی سختی اور کدورت بڑھتی ہے جیسے کہ آفتاب کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی ذکر اللہ سے مومنین کے قلوب نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دلوں کی سختی اور بڑھتی ہے ۔ فائدہ : اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنا چاہئے جنہوں نے ذکر اللہ کو روکنا اپنا شعار بنالیا ہے وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں ، نمازوں کے بعد ذکر اللہکرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں ، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں ، اور ان ذکر کی محفلوں سے نہایت گھبراتے اور بھاگتے ہیں اللہ تعالٰی ہدایت دے ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۳،۱۸۴)
حدیث مبارکہ، دل کی سختی عمل کو ضائع کرنے کا سبب:
حضرت سیِّدُنا عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’چھ چیزیں عمل کو ضائع کر دیتی (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۴) ہیں : (۱) مخلوق کے عیوب کی ٹوہ میں لگے رہنا (۲) دل کی سختی (۳) دنیا کی محبت (۴) حیا کی کمی (۵) لمبی لمبی امید یں (۶) اور حد سے زیادہ ظلم۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۴،۱۸۵)
قسوت یعنی دل کی سختی کے بارے میں تنبیہ:
قساوت یعنی دل کا سخت ہوجانا نہایت ہی مہلک اور اعمال کو ضائع کرنے والا مرض ہے نیز دل کا سخت ہونا بدبختی کی علامت ہے، گناہوں کی کثرت اس کا سبب عظیم اور موت وآخرت کی یاد اس کا علاج ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۵)
قساوت قلبی کے تین اسباب و علاج:
(1)…قساوتِ قلبی کا پہلا سبب پیٹ بھر کر کھانا ہے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذ رازِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’ جو پیٹ بھر کر کھانے کا عادی ہو جاتا ہے اس کے بدن پر گوشت بڑھ جاتا ہے اور جس کے بدن پر گوشت بڑھ جاتا ہے وہ شہوت پرست ہوجاتا ہے اور جوشہوت پرست ہوجاتا ہے اس کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور جس کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اس کا دِل سخت ہو جاتا ہے اور جس کا دِل سخت ہو جاتا ہے وہ دُنیا کی آفتوں اور رَنگینیوں میں غرق ہو جاتا ہے۔‘‘[3] حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’راہِ آخِرت پر گامزن بُزُرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سالن نہیں کھاتے تھے بلکہ وہ خواہِشاتِ نَفس کی تکمیل سے بچتے تھے کیوں کہ انسان اگر حسبِ خواہِش لذیذ چیزیں کھاتا رہے تو اِس سے اُس کے نَفس میں اَکڑ (یعنی غرور)اور دِل میں سختی پیدا ہوتی ہے، نیز وہ دُنیا کی لذیذ چیزوں سے اس قدَر مانوس ہو جاتاہے کہ لذائذِ دُنیا کی محبت اس کے دِل میں گھر کر جاتی ہے اور وہ ربِّ کائنات جَلَّ جَلَالُہُکی ملاقات اور اُس کی بارگاہِ عالی میں حاضِری کو بھول جاتا ہے، اس کے حق میں دُنیا جنّت اور موت قید خانہ بن جاتی ہے۔ اور جب وہ اپنے نَفس پر سختی ڈالے اور اس کو لذَّتوں سے محروم رکھے تودُنیا اُس کیلئے قید خانہ بن جاتی اورتنگ ہو جاتی ہے تو اس کا نَفس اس قید خانے اور تنگی سے آزادی چاہتا ہے اورموت ہی اس کی آزادی ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذ رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمان میں اِسی بات کی طرف اِشارہ ہے، چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’اے صِدّیقین کے گروہ! جنّت کا وَلیمہ کھانے کیلئے اپنے آپ کوبُھوکا رکھو کیوں کہ نَفس کو جس قدَر بھوکا رکھا جائے اُسی قدَرکھانے کی خواہش بڑھتی ہے۔‘‘[4] (یعنی جب شدّت سے بھوک لگی ہوتی ہے اُس وقت کھانا کھانے میں زیادہ لُطف آتا ہے، اس کا تجرِبہ عُموماً ہر روزہ دار کو ہوتاہے، لہٰذا دُنیا میں خوب بھوکے رہو تا کہ جنّت کی اعلیٰ نعمتوں سے خوب لذّت یاب ہو سکو) پیٹ بھر کر کھانے سے آدمی عبادت کی لذت و مٹھاس سے محروم ہوجاتا ہے ،امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : ’’ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایاتاکہ عبادت کی حلاوت نصیب ہو۔‘‘ حضرتِ سیِّدُناابراہیم بن ادھم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم فرماتے ہیں : ’’میں کوہ لبنان میں کئی اولیائے کرام کی صحبت میں رہا،ان میں سے ہر ایک نے مجھ سے یہی کہاکہ جب لوگوں میں جاؤ تو انہیں چار باتوں کی نصیحت کرنا،ان میں ایک نصیحت یہ تھی کہ جوزیادہ کھائے گااسے عبادت کی لذت نصیب نہیں ہوگی۔‘‘[5]
اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بھوک سے کم کھائے تاکہ اسے دوسرےکی بھوک کااحساس بھی پیدا ہو اور عبادت کی حلاوت بھی حاصل ہو۔بھوک سے کم کھانے کا مدنی ذہن بنانے کے لیے شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مایہ ناز تصنیف ’’فیضانِ سنت‘‘ جلداوّل کے باب ’’پیٹ کا قفل مدینہ ‘‘کا مطالعہ مفید ہے۔
(2)… قساوتِ قلبی کا دوسرا سبب فضول گوئی ہے۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے حواریوں کو نصیحت کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تم فُضُول گوئی سے بچتے رہو، کبھی بھی ذِکرُ اللہ کے عِلاوہ اپنی زبان سے کوئی لفظ نہ نِکالو، ورنہ تمہارے دِل سخت ہوجائیں گے، اگرچِہ دِل نرم ہوتے ہیں ( لیکن فُضُول گوئی اِنہیں سخت کر دیتی ہے) اور سخت دِل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے محروم ہو تا ہے۔‘‘ [6] (یعنی اگر تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت کے اُمید وار ہو تو اپنے دِلوں کو سختی سے بچاؤ)اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی زبان کو فضول گوئی سے محفوظ رکھے۔فضول گوئی سے جان چھڑانے کے لیے امیر اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’قفل مدینہ ‘‘ کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔
(3)… قساوتِ قلبی کا تیسرا سبَب زیادہ ہنسناہے ، چُنانچِہ رسولِ نذیر ، سِراجِ مُنیر،محبوبِ ربِّ قدیر صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ نصیحت نشان ہے:’’زیادہ مت ہنسو!کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ (یعنی سخت) کردیتاہے۔‘‘ [7]
اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر سنجیدگی پیدا کرے،مذاق مسخری کرنے والوں کی صحبت اختیار کرنے سے بچے۔قہقہہ لگانے سے بچے اور حضورنبی رحمت، شفیعِ اُمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے فقط مسکرانے کی عادت بنائے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۸۶تا۱۸۹)
[1] ۔۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق العاشر من ۔۔۔الخ،ج۲،ص۴۸۴، جہنم میں لےجانے والے اعمال، ج۱، ص۳۸۶۔
[2] ۔۔۔۔۔ کنزالعمال، کتاب المواعظ، الفصل السادس، الجزء: ۱۶، ج۸، ص۳۶، حدیث:۴۴۰۱۶۔
[3] ۔۔۔۔۔ المنبھات، باب الخماسی، ص۵۹۔
[4] ۔۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب کسر الشھوتین، بیان طریق الریاضۃ فی کسر شھوات البطن، ج۳،ص۱۱۴۔
[5] ۔۔۔۔ منھاج العابدین، ص۸۴،۹۸۔
[6] ۔۔۔۔ عیون الحکایات، الحکایۃ الثامنۃ والتسعون۔۔۔الخ، ص۱۱۹۔
[7] ۔۔۔۔ سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد، باب الحزن والبکاء، ج۴,ص۴۶۵،حدیث۴۱۹۳۔