دَم اور تعویذ کی شرعی حیثیت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  ایک حدیث مبارک ہے کہ جس کا مفہوم ہے: قیامت والے دن میری امت  میں سے 70 ہزار افراد بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور  وہ دم وغیرہ  نہیں کرتے ہوں گےاور بدشگونی نہیں لیتے ہوں گےاور  اپنے رب تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہوں گے۔(بخاری وغیرہ )اس حدیث  مبارک کے ضمن میں میرے  درج ذیل سوالات ہیں:

      (1)تعویذات  و دم وغیرہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

      (2)اگراجازت ہے، تو ذکر کردہ  حدیث مبارک کا کیا مطلب ہو گا، کیونکہ اس سے تو تعویذات کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے؟

 جواب: (1)شریعتِ مطہرہ میں ایسے تعویذات یا دم و غیرہ کی اجازت ہے  جو قرآنی آیات و احادیث مبارکہ  پر مشتمل ہوں یا  ایسے کلمات پر مشتمل  ہوں کہ جن میں کوئی شرک وغیرہ خلافِ شرع  بات نہ ہو، البتہ اگر تعویذ کسی بھی خلافِ شرع بات پر مشتمل ہو  یا کم از کم ایسے الفاظ پر مشتمل ہو کہ جس کا معنیٰ ہی معلوم نہ ہو، تو ایسے تعویذات وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔

     جائز کلام  کے ساتھ تعویذ اور دم وغیرہ کرنا ، جائز ہے اور یہ علاج کے دیگر طریقوں کی طرح ایک طریقِ علاج  ہے  نیز اس کا جواز قرآن  و  حدیث اور اقوالِ علماء  سے ثابت ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ﴾ ترجمہ : اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیزجو ایمان والوں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔(پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل، آیت 82)

     اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر روح المعانی میں ہے:’’قال مالک: لا باس بتعلیق الکتب التی فیھا اسماء اللہ تعالی علی اعناق المرضی علی وجہ التبرک بھا اذا لم یرد معلقھا بذلک مدافعۃ العین، وعنی بذلک انہ لا باس بالتعلیق بعد نزول البلاء رجاء الفرج والبر، کالرقی التی وردت السنۃ بھا من العین، واما قبل النزول ففیہ باس وھو غریب، وعند ابن المسیب یجوز تعلیق العوذۃ من کتاب اللہ تعالی فی قصبۃ ونحوھا وتوضع عند الجماع وعند الغائط، ولم یقید بقبل او بعد، ورخص الباقر فی العوذۃ تعلق علی الصبیان مطلقاً وکان ابن سیرین لا یری باساً بالشیء من القرآن یعلقہ الانسان کبیراً او صغیراً مطلقاً وھو الذی علیہ الناس قدیماً وحدیثاً فی سائر الامصار‘‘ ترجمہ: امام مالک  علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں: ایسا تعویذ جس میں اللہ عزوجل کے اسماء موجود ہوں، مریضوں کے گلے میں بطورِ تبرّ ک لٹکانے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ اس سے مدافعۃ العین کا ارادہ نہ کرے، اس سے مراد یہ ہے کہ نزول بلا کے بعد اس کے دور ہونے کی امید کرتے ہوئے لٹکانے میں حرج نہیں جیسے نظر کا وہ دم جس کے متعلق سنت وارد ہوئی ہے، بہر حال نزولِ بلا(مصیبت آنے ) سے قبل، تو اس میں حرج ہے، (لیکن) یہ قول غریب ہے، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کے نزدیک کتاب اللہ سے لکھا ہوا تعویذ ڈبیہ وغیرہا میں لٹکانا، جائز ہے جسے جماع  کے وقت اور بیت الخلاء جاتے ہوئے اتار دیا جائے، انہوں نے نزولِ بلا سے قبل و بعد کی کوئی قید نہیں لگائی، امام باقر علیہ الرحمۃ نے بچوں کے لئے مطلقاً تعویذ لٹکانے کی اجازت عطا فرمائی اور امام ابن سیرین علیہ الرحمۃ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قرآن کریم میں سے لکھا ہوا تعویذ انسان کو لٹکایا جائے، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اسی پر پرانے اور نئے زمانے کے تمام شہروں کے لوگوں کا اعتقاد ہے۔(تفسیر روح المعانی،  تحت الایۃ 82، ج 8، ص 139، مطبوعہ بیروت)

     نیزتعویذات اور دم کرنے کے جواز پر  چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

     نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک باندی پر نظرِ بد کے اثرات ملاحظہ فرمائے، تو ارشاد فرمایا:” بها نظرة فاسترقوا لها “ترجمہ:اسے نظر(بد) لگی ہے، لہٰذا اس  کے لیے دم کر دو۔(صحیح مسلم، ج4،ص1725، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دعائیہ کلمات پر مشتمل تعویذ بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے:’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: اذا فزع احدکم فی النوم، فلیقل: اعوذ بکلمات التامات من غضبہ وعقابہ وشر عبادہ ومن ھمزات الشیطان وان یحضرون، فانھا تضرہ، فکان عبد اللہ بن عمر یلقنھا من بلغ من ولدہ ومن لم یبلغ منھم کتبھا فی صک، ثم علقھا فی عنقہ‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے ،تو پڑھے: (ترجمہ) میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ لیتا ہوں اللہ کی ناراضی سے، اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانوں کے وسوسوں سے اور شیطانوں کے میرے پاس آنے سے، تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بالغ اولاد کو یہ سکھا ے تھے اور ان میں سے نابالغوں کے گلے میں کسی کاغذ پر لکھ کر ڈال دیتے تھے۔(جامع ترمذی، ج 2، ص 192، مطبوعہ  کراچی)

     حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :’’ ان نفراً من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم مروا بماء، فیھم لدیغ او سلیم، فعرض لھم رجل من اھل الماء، فقال: ھل فیکم من راق، ان فی الماء رجلاً لدیغا او سلیماً، فانطلق رجل منھم، فقرا بفاتحۃ الکتاب علی شاء فبرا، فجاء بالشاء الی اصحابہ، فکرھوا ذلک، وقالوا: اخذت علی کتاب اللہ اجراً، حتی قدموا المدینۃ، فقالوا: یا رسول اللہ! اخذ علی کتاب اللہ اجراً، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان احق ما اخذتم علیہ اجراً کتاب اللہ‘‘ترجمہ:صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت   کسی  گھاٹ سے گزری ،جس میں سانپ یا بچھو کا ڈسا ہوا شخص  تھا،گھاٹ والوں میں ایک شخص صحابہ کرام علیہم الرضوان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ کیونکہ گھاٹ  میں ایک شخص سانپ یا بچھوکا کاٹا ہوا ہے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے ایک صحابی ان کے ساتھ چلے گئے اور بکریاں لینے کی شرط پر سورۂ فاتحہ کے ذریعے دم کیا، تو (دم) سے وہ شخص ٹھیک ہو گیا، دم کرنے والے صحابی دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے پاس (دم کے بدلے وصول کی جانے والی) بکریاں لے کر آئے، تو دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے ناپسند کیا اور کہا کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے،جب مدینہ شریف میں آئے ،تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر  عرض کی کہ فلاں صحابی نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے، تو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے (یعنی یہ اجرت لینا جائز ہے)۔(صحیح بخاری، ج 2، ص 854،  مطبوعہ کراچی)

     (2)مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قرآن و سنت کے مطابق جائز   کلمات یا جائز عمل پر مشتمل  تعویذ  یا دم وغیرہ  بالکل جائز ہے، البتہ  سوال میں بیان کردہ حدیث   اور اس طرح کی جتنی بھی روایات ہیں کہ جن  سے تعویذات  وغیرہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے،  شارحین حدیث نے ان کے محامل  و مطالب بیان فرمائے ہیں، یہاں ان کو ذکر کیا جا رہا ہے :

     (۱)ممانعت ایسے تعویذ  یا دم وغیرہ کی ہے کہ جس میں شرکیہ  و کفریہ یا ممنوع کلمات ہوں، لہٰذا جس میں ایسی کچھ خلافِ شرع بات نہ ہو، اس کی ممانعت نہیں ہے۔ جیسا کہ صحیح  مسلم شریف کی  حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عوف ابن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :’’کنا نرقی فی الجاھلیۃ فقلنا: یا رسول اللہ! کیف تری فی ذلک؟ فقال: اعرضوا علی رقاکم لا باس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘ ترجمہ : ہم دورِ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے، تو ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)! اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو ارشاد فرمایا: مجھ پر اپنے دم پیش کرو، جھاڑ پھوک میں کوئی حرج نہیں، جب تک کہ اس میں شرک نہ ہو۔(صحیح مسلم، ج4، ص1727، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     (۲)اس سے مراد وہ دم وغیرہ ہے کہ جس میں  کفار کے منتر وغیرہ  میں سے  کچھ ہو یا ایسے کلمات پر مشتمل ہو  کہ جس کا معنیٰ  ہی معلوم نہ ہوں ، کیونکہ اس  صورت میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ  ہو سکتا ہےاس کا معنیٰ کفریہ ہو، لہٰذا اس سے بھی ممانعت فرمائی۔ چنانچہ امام نووی  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”المراد بها الرقى التي هي من كلام الكفار والرقى المجهولة والتى بغير العربية ومالا يعرف معناها فهذه مذمومة لاحتمال أن معناها كفر أو قريب منه أو مكروه وأما الرقى بآيات القرآن وبالأذكار المعروفة فلانهى فيه بل هو سنة “ ترجمہ:اس سے مراد وہ دم وغیرہ ہے کہ  جو کفار کے منتر پر مشتمل ہو  اور مجہول   کلمات پر مشتمل ہو اورغیر عربی میں  ہو اور ایسا ہو کہ جس کا معنیٰ معلوم نہ ہو  کہ ایسا دم مذموم ہے،  کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ اس  کا معنیٰ کفریہ ہو یا کفر کے قریب ہو۔ بہر حال وہ دم کہ جو آیاتِ قرآنی  اور معروف اذکار پر مشتمل ہو ، تو اس میں ممانعت نہیں ہے، بلکہ وہ سنت ہے۔(شرح النووی علی المسلم، ج14، ص168، دار احیاء التراث العربی)

     (۳)ممانعت ان لوگوں کے متعلق ہے کہ جو اس تعویذ وغیرہ کو مؤثر حقیقی سمجھتے ہیں، حالانکہ مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، تعویذ وغیرہ ذرائع و اسباب کی قبیل سے ہوتے ہیں یا ممانعت ایسی چیزوں   سے متعلق ہے کہ جن اشیاء کے متعلق کفار کے ذہن میں تاثیر کا عقیدہ  راسخ ہو چکا تھا۔

     شرح صحیح مسلم للنووی میں ہے : ” أن النهي لقوم كانوا يعتقدون منفعتها وتأثيرها بطبعها كما كانت الجاهلية تزعمه في أشياء كثيرة“ ترجمہ:ممانعت ان لوگوں کے بارے میں کہ جو لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اشیاء میں تاثیر و منفعت ان کی طبیعت(ذات) کی وجہ سے ہے  جیسا کہ دورِ جاہلیت میں کثیر اشیاء کے متعلق لوگوں کا اعتقاد تھا۔(شرح النووی علی المسلم، ج14، ص168، دار احیاء التراث العربی)

     مرقاۃ المفاتیح، فیض القدیر،فتح الباری وغیرہ میں ہے:واللفظ للاول:’’(التمائم) جمع تمیمۃ، والمراد بھا التعاویذ التی تحتوی علی رقی الجاھلیۃ من اسماء الشیاطین والفاظ لا یعرف معناھا، قیل: التمائم خرزات کانت العرب فی الجاھلیۃ تعلقھا علی اولادھم یتقون بھا العین فی زعمھم، فابطلہ الاسلام، لانہ ینفع ولا یدفع الا اللہ تعالی‘‘ترجمہ : تمائم تمیمہ کی جمع ہے، اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جو زمانہ جاہلیت کے ایسے دموں پر مشتمل ہیں، جن میں شیاطین کے نام اور ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن کے معنی معلوم نہ ہوں اور کہا گیا کہ تمائم سے مراد وہ گھونگے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اپنی اولاد کے گلوں میں ڈالتے، ان کا گمان یہ ہوتا تھا کہ یہ (ذاتی طور پر)بچوں کو نظر بد سے بچاتے ہیں، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کوئی چیز نفع نہیں پہنچا سکتی اور نہ مصیبت دور کر سکتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ، ج 8، ص 255،  مطبوعہ کوئٹہ)

     (۴)ممانعت والی روایات سے مراد شیطانی منتر یا جادو ہے یا ایسا عمل ہے کہ جسے  کسی ناجائز  کام کے لیے کیا جائے جیسے میاں بیوی میں جدائی کروانے کے لیے وغیرہ ۔ چنانچہ امام نووی  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”قال القاضي وجاء في حديث في غير مسلم سئل عن النشرة  فأضافها إلى الشيطان قال والنشرة عروفة مشهورة عند أهل التعزيم وسميت بذلك لأنها تنشر عن صاحبها أي تخلي عنه وقال الحسن هي من السحر قال القاضي وهذا محمول على أنها أشياء خارجة عن كتاب الله تعالى وأذكاره وعن المداواة المعروفة التي هي من جنس المباح “ترجمہ:قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ صحیح مسلم کے علاوہ کی حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نشرہ (منتر یا جادو) کے متعلق پوچھا گیا، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ۔ قاضی عیاض علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ نشرہ اہل تعزیم کے نزدیک مشہور و معروف ہے  اور اس کو نشرہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عورت کو مرد سے جدا کرتا ہے۔ قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ممانعت اس پر محمول ہے کہ  یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور معروف مباح کاموں سے خارج ہیں۔(شرح النووی علی المسلم ،ج14،ص168 تا 169،دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     (۵)پہلے اس کی ممانعت تھی، لیکن بعد میں جائز کلمات پر مشتمل  تعویذات وغیرہ کی اجازت دے دی گئی یعنی ممانعت والی روایات منسوخ ہیں اور اجازت والی ناسخ ہیں۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى، فجاء آل عمرو بن حزم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب، وإنك نهيت عن الرقى، قال: فعرضوها عليه، فقال: «ما أرى بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه “ترجمہ:رسول  پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دم سے منع فرمایا ، پھر آل عمرو بن حزم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے  اور عرض کی کہ ہمارے پاس ایسا دم ہے کہ جس کے ساتھ  ہم بچھو سے(بچھو کے ڈسے ہوئے کو) دم کرتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے وہ دم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پیش کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس میں کچھ حرج  نہیں دیکھتا ، پس جو کسی مسلمان بھائی کو نفع دینے کی استطاعت رکھے ، تو اسے چاہیے کہ وہ ایسا کرے۔(صحیح مسلم، ج4،ص1726،دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     شرح صحیح مسلم ممانعت کی مختلف توجیہات کے ضمن میں ایک توجیہ یہ بیان فرمائی گئی ہے: ” كان نهى أولاثم نسخ ذلك وأذن فيها وفعلها واستقر الشرع على الإذن “ترجمہ:اولاً ممانعت تھی، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس کی اجازت دے دی گئی  اور شریعت مطہرہ نے اجازت کو باقی رکھا۔(شرح النووی علی المسلم، ج14، ص168، دار احیاء التراث العربی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے