چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھنا کیسا؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے میں چارزانو  بیٹھ کر نماز پڑھناکیسا ہے؟

 
 

جواب:  بلاعذر چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے ،کیونکہ اس میں نماز میں بیٹھنے کے سنّت طریقے کا ترک ہے،سنّت طریقہ  یہ ہے کہ اُلٹا پاؤں بچھا کراس پر بیٹھ جائے اورسیدھا پاؤں کھڑا  رکھے اور اس کی انگلیاں قبلہ رُو  ہوں  ،ہاں اگر عذر کے سبب چارزانو بیٹھتا ہے، تو اب مکروہ نہیں۔

    ہدایہ میں ہے:”ولا یتربّع الا من عذر لانّ فیہ  ترک سنّۃ القعود“ترجمہ: چوکڑی مار کر نہیں بیٹھے گا، مگر عذر کے سبب، کیونکہ اس طرح بیٹھنے میں سنت  کا ترک ہے۔

       (ھدایہ اولین،ص142-143،مطبوعہ لاھور)

    بنایہ میں ہے:”وھی افتراش رجلہ الیسریٰ والجلوس علیھا ونصب الیمنٰی وتوجیہ اصابعہ الی القبلۃ واما فی حالۃ العذر فلانہ یبیح ترک الواجب فاولیٰ ان یبیح ترک المسنون“یعنی نماز میں بیٹھنے کاسنت طریقہ یہ ہے کہ اپنابایاں پاؤں بچھادے اوراس پر بیٹھ جائے اور دائیں پاؤں کوکھڑا کردے اور انگلیوں کا رخ قبلہ رُو رکھے ،البتہ عذر کی حالت میں چار زانو بیٹھنے کی اجازت ہے ،کیونکہ عذرمیں جب واجب چھوڑنے کی اجازت ہے ،تو سنّت چھوڑنے کی تو بدرجہ اولیٰ اجازت ہوگی ۔

    (البنایۃ شرح الھدایۃ،ج2،ص511،مطبوعہ ملتان)

    درّ مختارمیں ہے:” وکرہ التربع تنزیھا لترک الجلسۃ المسنونۃ بغیر عذر“ترجمہ:بلا عذر

    نماز میں  چار زانو  بیٹھنا  مکروہ تنزیہی ہے،کیونکہ اس میں بیٹھنے کے مسنون طریقےکاترک ہے۔

    اس کے تحت رد المحتار  میں ہے:”(قولہ:بغیر عذر)اما بہ فلا لان الواجب یترک مع العذر فالسنۃ اولی “یعنی عذر کی صورت میں چارزانو بیٹھنے کی اجازت ہے،کیونکہ جب عذر کے سبب واجب چھوڑا جاسکتا ہے، تو سنت توبدرجہ اولیٰ چھوڑی جاسکتی ہے۔

       (الدرّ المختارورد المحتار،ج2،ص498،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”نماز میں بغیر عذر چار زانو بیٹھنا مکروہ ہے اور عذر ہو ،تو حرج نہیں۔“

 (بھار شریعت،ج1،حصہ3،ص632،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے