بدشگونی
بدشگونی کی تعریف:
تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کےاشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب ’’بدشگونی‘‘ صفحہ ۱۰ پر ہے: ’’ شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز ،شخص، عمل،آواز یا وَقْت کو اپنے حق میں اچھا یابُرا سمجھنا۔ (اسی وجہ سے بُرا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔)(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۴)
شگون کی قسمیں :
بنیادی طور پر شگون کی دو قسمیں ہیں : (۱) بُرا شگون لینا (۲)اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد اَنصاری قُرطبی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی تفسیرِ قُرطبی میں نَقْل کرتے ہیں : ’’اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا اِرادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کردلیل پکڑنا،یہ اس وَقْت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُرا ہو تو بَد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُراکلام سُنے تو اس کی طرف توجُّہ نہ کرے اورنہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔‘‘[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۴)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:( فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)) (پ۹، الاعراف: ۱۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: ’’تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسٰی اور اس کے ساتھ والوں سے بد شگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔‘‘
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّتحضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اِس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں : ’’جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت (قحط سالی وغیرہ) آتی تھی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بَدشگونی لیتے تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہِر ہوئے ہیں تب سے ہم پر مصیبتیں بلائیں آنے لگیں۔ ‘‘ مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں :’’انسان مصیبتوں ، آفتوں میں پھنس کر توبہ کرلیتا ہے مگر وہ لوگ ایسے سَرکش تھے کہ ان سب سے ان کی آنکھیں نہ کُھلیں بلکہ ان کا کُفْروسَرکشی اور زیادہ ہوگئی کہ جب کبھی ہم ان کو آرام دیتے ہیں ، اَرزانی ،چیزوں کی فَراوانی وغیرہ تو وہ کہتے کہ یہ آرام وراحت ہماری اپنی چیزیں ہیں ،ہم اس کے مستحق ہیں نیز یہ آرام ہماری اپنی کوششوں سے ہیں۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۴،۲۸۵)
حدیث مبارکہ، بدشگونی لینے والاہم میں سے نہیں :
حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘[3] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۵،۲۸۶)
بدشگونی کاحکم:
حضرت سید نا امام محمد آفندی رُومی برکلی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَلِی لکھتے ہیں : ’’بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے۔‘‘[4] مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے۔‘‘[5] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۶)
ایک اہم ترین وضاحت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں بُرے شگون کا خیال آہی جاتا ہے اس لئے کسی شخص کے دِل میں بَدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِرشادفرماتا ہے :( لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-)(پ۳، البقرۃ: ۲۸۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔‘‘حضرت علامہ مُلَّا جِیْون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس آیت کے تحت تفسیراتِ احمدیہ میں لکھتے ہیں : ’’یعنی اللہ تَعَالٰی ہر جاندار کو اس بات کا مُکَلَّف(یعنی ذمہ دار) بناتا ہے جو اس کی وُسعت وقدرت میں ہو۔‘‘[6] چنانچہ اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ اِلزام نہیں لیکن اگر اس نے بَدشگونی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھا اور اِسی اعتقاد کی بنا پر اس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔شیخ الاسلام شہاب الدّین امام احمد بن حجر مکی ہیتمی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی اپنی کتاب اَلزَّوَاجِرُ عَنِ اقْتِرَافِ الْکَبَائِر میں بَدشگونی کے بارے میں دو حدیثیں نَقْل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’پہلی اور دوسری حدیثِ پاک کے ظاہِری معنی کی وجہ سے بَدفالی کو گناہِ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہو جو بَدفالی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھتا ہو جبکہ ایسے لوگوں کے اسلام (یعنی مسلمان ہونے نہ ہونے) میں کلام ہے۔‘‘[7] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۶،۲۸۷)
بدشگونی کے پانچ اسباب و علاج :
(1)… بدشگونی کا پہلا سبب اِسلا می عقائد سے لاعلمی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ تقدیر پر اِن معنوں میں اعتقاد رکھے کہ ہر بھلائی، بُرائی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے عِلْم سے جانا اور وہی لکھ دیا۔ تو بَدشگونی دل میں جگہ ہی نہیں بناسکے گی کیونکہ جب بھی انسان کو کوئی نقصان پہنچے گا تو وہ یہ ذہن بنالے گا کہ یہ میری تقدیر میں لکھا تھا نہ کہ کسی چیزکی نُحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔
(2)… بدشگونی کا دوسرا سبب توکل کی کمی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی بَدشگونی دل میں کھٹکے تو رب عَزَّ وَجَلَّ پر توکُّل کیجئے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بَدشگونی کا خیال دل سے جاتا رہے گا ۔
(3)… بدشگونی کا تیسراسبب بدفالی کی وجہ سےکا م سے رک جانا ہے۔ اِس کا علاج یہ ہے کہ جب کسی کام میں بدفالی نکلے تو اسے کر گزرئیے اور اپنے دل میں اس خیال کو جگہ مت دیجئے کہ اس بدفالی کے سبب مجھے اس کام میں کوئی خسارہ وغیرہ ہوگا۔
(4)… بدشگونی کا چوتھا سبب اس کی ہلاکت خیزیوں اور نقصانات سے بے خبری ہے کہ بندہ جب کسی چیز کے نقصان سے ہی با خبر نہیں ہے تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ بدشگونی کی ہلاکت خیزیوں اور نقصانات کو پڑھے، ان پر غور کرے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔بدشگونی کے چند نقصانات یہ ہیں : بَدشگونی انسان کے لئے دینی و دُنیوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے ۔یہ انسان کو وسوسوں کی دَلدل میں اُتار دیتی ہے چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی پَرچھائی (یعنی سائے)سے بھی خوف کھاتا ہے۔ وہ اس وَہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی ساری بَدبختی وبَدنصیبی اسی کے گِرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا شخص اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں کَدُورَت(یعنی دشمنی) پیدا ہوتی ہے ۔ بَدشگونی کی باطنی بیماری میں مبتلا انسان ذہنی وقلبی طور پر مَفْلُوج(یعنی ناکارہ) ہوکر رہ جاتا ہے اور کوئی کام ڈَھنگ سے نہیں کرسکتا ۔بدشگونی کی چند ہلاکت خیزیاں یہ ہیں :٭بدشگونی کا شکار ہونے والوں کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اِعتماد اور توکُّل کمزور ہوجاتاہے۔٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بارے میں بَدگمانی پیداہوتی ہے۔٭تقدیر پر ایمان کمزور ہونے لگتا ہے۔ ٭شیطانی وَسْوَسوں کا دروازہ کھلتاہے۔٭ بَدفالی سے آدمی کے اندر توہُّم پرستی ، بُزدلی ،ڈر اور خوف ، پَست ہمتی اورتنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے۔٭ناکامی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً کام کرنے کا طریقہ دُرُست نہ ہونا، غَلَط وَقْت اور غَلَط جگہ پر کام کرنااور ناتجربہ کاری لیکن بَدشگونی کا عادی شخص اپنی ناکامی کا سبب نُحوست کو قرار دینے کی وجہ سے اپنی اِصلاح سے محروم رہ جاتا ہے۔٭بَدشگونی کی وجہ سے اگر رشتے ناطے توڑے جائیں تو آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔ ٭جو لوگ اپنے اوپر بَدفالی کا دروازہ کھول لیتے ہیں انہیں ہرچیز منحوس نظر آنے لگتی ہے ، کسی کام کے لیے گھر سے نکلے اور کالی بلی نے راستہ کاٹ لیا تویہ ذہن بنالیتے ہیں کہ اب ہمارا کام نہیں ہوگا اور واپس گھر آگئے ،ایک شخص صبح سویر ے اپنی دکان کھولنے جاتاہے راستہ میں کوئی حادثہ پیش آیا تو سمجھ لیتاہے کہ آج کا دن میرے لیے منحوس ہے لہٰذا آج مجھے نقصان ہوگا یوں ان کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔٭کسی کے گھر پراُلّو کی آواز سن لی تو اِعلان کردیا کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونے والاہے ،جس کے نتیجے میں اس گھروالوں کے لئے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔٭نیا ملازم اگر کاروباری ڈِیل نہ کرپائے اور آرڈر ہاتھ سے نکل جائے تو فیکٹری مالک اسے منحوس قرار دے کر نوکری سے نکال دیتا ہے۔٭ نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گرکر ٹُوٹ پُھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھا جاتاہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔
(5)…بدشگونی کا پانچواں سبب روز مرہ کے معمولات میں وظائف شامل نہ ہونا ہے۔اس کا علاج اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، مجدددین وملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس قسم (یعنی بَدشگونی وغیرہ)کے خطرے وَسْوَسے جب کبھی پیدا ہوں اُن کے واسطے قرآن کریم و حدیث شریف سے چند مختصر و بیشمار نافِع(فائدہ دینے والی) دعائیں لکھتا ہوں انہیں ایک ایک بار خواہ زائد (یعنی ایک سے زیادہ مرتبہ) آپ اور آپ کے گھر والے پڑھ لیں۔ اگر دل پُختہ ہوجائے اور وہ وہم جاتا رہے تو بہتر ورنہ جب وہ وسوسہ پیدا ہو توایک ایک دفعہ پڑھ لیجئے اور یقین کیجئے کہ اللہ ورسول کے وعدے سچے ہیں اور شیطان مَلْعُون کا ڈرانا جُھوٹا۔ چند بار میں بِعَوْنِہٖ تَعَالٰی (یعنی اللہ تعالٰیکی مدد سے) وہ وہم بالکل زائل (یعنی ختم) ہو جائے گا اور اَصلاً کبھی کسی طرح اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ وہ دعائیں یہ ہیں :٭ لَنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ یعنی ہمیں کوئی تکلیف وغیرہ نہیں پہنچے گی سوائے اس کے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمارے لیے مقدر فرمادی، وہی ہمارا مولا ہے اور توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں۔ ‘‘(پ۱۰،التوبۃ:۵۱)٭ ’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ یعنی اﷲ ہمیں کافی ہے اور کیا اچھا بنانے والا۔‘‘(پ۴،آل عمران: ۱۷۳)٭ ’’اَللّٰھُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا یَذْھَبُ بَالسَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَلا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم الا باللہ العلی العظیم الا باللہ العلی العظیم اِلَّا بِکَ یعنی الٰہی!اچھی باتیں تیرے سوا کوئی نہیں لاتا اور بُری باتیں تیرے سوا کوئی دُور نہیں کرتا اور کوئی زور طاقت نہیں مگر تیری طرف سے۔‘‘ ٭ ’’اَللّٰھُمَّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! تیری فال فال ہے اور تیری ہی خیر خیر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ ‘‘[8]
بدشگونی کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب ’’بدشگونی ‘‘ کامطالعہ کیجئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۲۸۹تا۲۹۳)
[1]۔۔۔۔ جامع احکام القراٰن ،پ۲۶، الاحقاف،تحت الاٰیۃ:۴،الجزء: ۱۶، ج۸، ص۱۳۲۔
[2]۔۔۔۔ تفسیر نعیمی،پ۹، الاعراف، تحت الآیہ: ۱۳۱، ج۹، ص۱۱۷۔
[3] ۔۔۔۔ معجم کبیر، حدیث عمران بن حصین، ج۱۸، ص۱۶۲، حدیث: ۳۵۵۔
[4] ۔۔۔۔ الطریقۃ المحمدیۃ، ج۲، ص۱۷، ۲۴۔
[5] ۔۔۔۔ تفسیر نعیمی،پ۹، الاعراف، تحت الآیہ: ۱۳۲، ج۹،ص۱۱۹۔
[6] ۔۔۔۔ تفسیرات احمدیہ ،ص۱۸۹۔
[7] ۔۔۔۔ الزواجر،الباب الثانی فی ۔۔۔الخ، باب السفر، ج۱، ص۳۲۶۔
[8] ۔۔۔۔ فتاویٰ رضویہ، ج۲۹، ص۶۴۵۔