سوءِ ظن
(یعنی بدگمانی)
سوء ظن یعنی بدگمانی کی تعریف:
شیخ طریقت امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ بدگمانی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔‘‘[1] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۰،۱۴۱)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲))(پ۲۶، الحجرات: ۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’مومنِ صالح کے ساتھ بُرا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنٰی مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنٰی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔ سفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا گمان دو طرح کا ہے ، ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ، یہ اگر مسلمان پر بدی کے ساتھ ہے گناہ ہے ، دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے ، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل خالی کرنا ضرور ہے ۔ مسئلہ : گمان کی کئی قسمیں ہیں ، ایک واجب ہے وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک مستحب وہ مومنِ صالح کے ساتھ نیک گمان ایک ممنوع حرام وہ اللہ کے ساتھ بُرا گمان کرنا اور مومن کے ساتھ بُرا گمان کرنا ایک جائز وہ فاسقِ مُعْلِنْ کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۲،۱۴۲)
حدیث مبارکہ، مومن کی بدگمانی اللہ سے بدگمانی:
اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:(اِجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ) (پ۲۶، الحجرات: ۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بہت گمانوں سے بچو۔‘‘[2] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۲)
بدگمانی کا حکم:
تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ ۶۴ صفحات پر مشتمل رسالے ’’بدگمانی‘‘ صفحہ۲۱پر ہے: ’’کسی شخص کے دِل میں کسی کے بارے میں بُرا گُمان آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دِل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی اِنسان پر اس کی طاقت سے زائدبوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے ،اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-) (پ۳،البقرۃ:۲۸۶) ترجمۂ کنزالایمان : ’’اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۲،۱۴۳)
بدگُمانی کے حرام ہونے کی دو صُورتیں :
(1)…بدگمانی کو دِل پر جما لینا : شارح بخاری علامہ بدرُالدین عینی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : ’’گُمان وہ حرام ہے جس پر گُمان کرنے والا مُصِرہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے دِل پر جمالے نہ کہ وہ گُمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے ۔‘‘[3]
حجۃ الاِسلام اِمام محمدغزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’(مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے ۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے بارے میں برا یقین کرلیا جائے،رہے دِل میں پیدا ہونے والے خدشات و وَسْوَسے تو وہ معاف ہیں بلکہ شک بھی معاف ہے ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :’’بدگُمانی کے پختہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ مظنون کے بارے میں تمہاری قَلْبِی کَیْفِیَّت تبدیل ہوجائے ، تمہیں اُس سے نفرت محسوس ہونے لگے ،تم اُس کو بوجھ سمجھو،اس کی عزت واِکرام اور اس کے لئے فِکْرمند ہونے کے بارے میں سُستی کرنے لگو۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جب تم کوئی بدگُمانی کر بیٹھو و تو اس پر جمے نہ رہو۔‘‘[4] یعنی اسے اپنے دِل میں جگہ نہ دو ،نہ کسی عمل کے ذریعے اس کا اِظہار کرو اور نہ اَعضاء کے ذریعے اس بدگُمانی کو پُختہ کرو۔[5] مثلاًشیطان نے کسی شخص کے دِل میں کسی نیک شخص کے بارے میں رِیاکاری کا گُمان ڈالا تو اس اِسلامی بھائی نے اس گُمان کو فوراً جھٹک دیا اور اس مسلمان کے بارے میں مُخْلِص ہونے کا حسنِ ظن قائم کر لیا تو اب اس کی گَرِفْت نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ گنہگار ہو گا ۔اِس کے برعکس اگر دِل میں بدگُمانی آنے کے بعد اُس کو نہ جُھٹلایا اور وہ بدگُمانی اس کے دِل میں قَرار پکڑ ے رہی حتی کہ یقین کے دَرَجے پر پہنچ گئی کہ فُلاں شخص ریا کار ہی ہے تو اب بدگُمانی کرنے والا گناہ گار ہوگا چاہے اس بارے میں زبان سے کچھ نہ بولے ۔
(2)…بدگُمانی کو زبان پر لے آنایا اس کے تقاضے پر عمل کر لینا: علامہ عبدالغنی نابلسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : ’’شک یا وہم کی بناء پر مؤمنین سے بدگُمانی اِس صورت میں حرام ہے جب اس کا اثر اَعضاء پر ظاہِر ہو یعنی اس کے تقاضے پر عمل کر لیا جائے مثلاًاس بدگُمانی کو زبان سے بیان کردیا جائے ۔‘‘[6]
علامہ سیِّد محمود آلُوسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں : ’’جب بدگُمانی غیر اِختِیاری ہو تو جس چیز کی مُمَانَعَت ہے ،وہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنا ہے( یعنی مظنون یعنی جس کے بارے میں دِل میں گُمان آئے) کو حقیر جاننا یا اس کی عیب گوئی کرنایا اس بدگُمانی کوبیان کردینا ۔‘‘[7]
مثلاً کسی نے دعوت کی اور دعوت میں نہ پہنچنے والے شخص نے ملاقات ہونے پر اپنا کوئی عُذْر پیش کیا مگر دعوت کرنے والےکے دِل میں شیطان نے وَسْوَسَہ ڈالا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اُس نے اِس گُمان کی پیروی کرتے ہوئے فوراً بول دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو ایسی بدگُمانی حرام ہے ۔[8](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۳تا ۱۴۵)
بدگمانی کیوں حرام ہے؟
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’بدگُمانی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دِل کے بھیدوں کوصِرْف اللہ تعالٰی جانتا ہے، لہٰذا تمہارے لئے کسی کے بارے میں بُرا گُمان رکھنا اُس وَقْت تک جائز نہیں جب تک تم اُس کی بُرائی اِس طرح ظاہِر نہ دیکھو کہ اس میں تاویل (یعنی بچاؤ کی دلیل) کی گنجائش نہ رہے، پس اُس وَقْت تمہیں لامُحالہ (یعنی ناچار) اُسی چیز کا یقین رکھناپڑے گا جسے تم نے جانا اور دیکھا ہے اور اگر تم نے اُس کی برائی کو نہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اورنہ ہی کانوں سے سنا مگر پھر بھی تمہارے دِل میں اس کے بارے میں بُرا گُمان پیدا ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ بات تمہارے دِل میں شیطان نے ڈالی ہے،اس وَقْت تمہیں چاہئے کہ دِل میں آنے والے اُس گُمان کو جُھٹلا دو کیونکہ یہ (بدگمانی) سب سے بڑا فِسْق ہے۔‘‘مزید لکھتے ہیں :’’یہاں تک کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شَراب کی بُو آرہی ہو تو اُس کوشَرْعی حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اُس نے شراب کا گُھونٹ بھرتے ہی کلّی کردی ہو یا کسی نے اُسے زبردستی شَراب پِلادی ہو، جب یہ سب احْتِمالات (یعنی شُبُہات) موجود ہیں تو (ثُبُوتِ شَرْعی کے بِغیر) مَحْض قَلْبی خَیالات کی بِنا پر تصدیق کردینا اور اس مسلمان کے بارے میں (شرابی ہونے کی) بدگُمانی کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘[9](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۵،۱۴۶)
بدگمانی کے سات علاج:
شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے ’’شیطان کے بعض ہتھیار‘‘ صفحہ ۳۴ سے بدگمانی کے سات علاج پیش خدمت ہیں :
(1)…مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھئے: مسلمانوں کی خامیوں کی ٹَٹول کے بجائے اُن کی خوبیوں پر نظر رکھئے ، جوان کے متعلِّق حسنِ ظن رکھتا ہے اُس کے دل میں راحَتوں کا بَسیرا اور جس پر شیطان کا ہتھیار کام کر جائے اور وہ بد گُمانی کی بُری عادت میں مبتَلا ہو جائے، اُس کے دل میں وَحْشتوں کا ڈَیرا ہوتا ہے ۔
(2)…بدگمانی سے توجہ ہٹا دیجئے: جب بھی کسی مسلمان کے بارے میں دِل میں بُرا گُمان آئے تو اسے جھٹک دیجئے اور اس کے عمل پر اچھا گُمان قائم کرنے کی کوشِش فرمایئے۔ مَثَلاً کسی اسلامی بھائی کونعت یا بیان سنتے ہوئے روتا دیکھ کر آپ کے دِل میں اُس کے متعلِّق رِیاکاری کی بدگُمانی پیدا ہو تو فوراً اِس کے اِخلاص سے رونے کے بارے میں حُسنِ ظن قائم کر لیجئے ۔حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُول دِمَشْقِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ جب تم کسی کو روتا دیکھو تو خود بھی روؤاور اُسے رِیا کار نہ سمجھو ،میں نے ایک دَفْعہ کسی شخص کے بارے میں یہ خیال کیا تو میں ایک سال تک رونے سے محروم رہا۔‘‘[10]
(3)…خود نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں :اپنی اِصلاح کی کوشِش جاری رکھئے کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گُمان (یعنی اچھے خیالات ) رکھتا ہے جبکہ جو خود بُرا ہو اُسے دوسرے بھی بُرے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ عَرَبی مَقُولہ ہے :اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہ یعنی جب کسی کے کام بُرے ہوجائیں تو اُس کے گُمان (یعنی خیالات ) بھی بُرے ہوجاتے ہیں۔[11]
اِمامِ اَہلسنّت مُجَدِّد ِ دین و ملّت مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن نَقْل فرماتے ہیں : ’’خبیث گُمان خبیث دل ہی سے نکلتا ہے۔‘‘[12]
(4)…بُری صُحبت بُرے گمان پیدا کرتی ہے:بُری صُحبت سے بچتے ہوئے نیک صُحبت اِختِیار کیجئے،جہاں دوسری بَرَکتیں ملیں گی وَہیں بدگُمانیسے بچنے میں بھی مدد حاصِل ہو گی ۔حضرتِ سیِّدُنا بِشْر بن حارِث رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : صُحْبَۃُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَاریعنی بُروں کی صُحبت اچّھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے ۔[13]
(5)… کسی سے بدگمانی ہوتو عذاب الٰہی سے خود کو ڈرائیے: جب بھی دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہوتوخود کو بدگُمانی کے انجام اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیے۔ پارہ ۱۵ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۳۶ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: (وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶))ترجمۂ کنزالایمان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہو نا ہے۔کسی کے بارے میں بدگُمانی پیدا ہوتو اپنے آپ کو اِس طرح ڈرایئے کہ بڑا عذاب تو دُور رہا میری حالت تو یہ ہے کہ جہنَّم کا سب سے ہلکا عذاب بھی برداشت نہیں کر سکوں گا۔آہ! ہلکا عذاب بھی کس قَدَر ہو لناک ہے! بخاری شریف میں حضرت ِسیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اُسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اُس کا دماغ کھولنے لگے گا۔‘‘[14]
(6)…کسی کے بارے میں بد گُمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعاکیجئے:جب بھی کسی کے بارے میں ’’بدگمانی‘‘ ہونے لگے تواپنے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں یوں دُعا مانگئے:یاربِّ مصطفےٰ عَزَّ وَجَلَّ !تیرا یہ کمزور بندہ دُنیا وآخِرت کی تباہی سے بچنے کے لئے اِس بدگُمانی سے اپنے دِل کو بچانا چاہتاہے۔یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے شیطان کے خطرناک ہتھیار ’’بدگُمانی‘‘ سے بچا لے۔مجھے ’’حسن ظن‘‘ جیسی عظیم دولت عطا فرما دے، اے میرے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے اپنے خوف سے معمور دِل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
(7)…جس کے لئے بد گُمانی ہو اُس کے لئے دعائے خیر کیجئے:جب بھی کسی اِسلامی بھائی کے لئے دِل میں بدگُمانی آئے تو اُس کے لئے دُعائے خیر کیجئے اور اُس کی عزّت واِکرام میں اضافہ کردیجئے ۔ حُجَّۃُ الْاِسلامحضرت سیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی ارشاد فرماتے ہیں :’’ جب تمہارے دِل میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگُمانی آئے توتمہیں چاہیے کہ اس کی رعایت (یعنی عزّت و آؤ بھگت وغیرہ )میں اِضافہ کردو اور اس کے لئے دُعائے خیر کرو ، کیونکہ یہ چیز شیطان کو غُصّہ دِلاتی ہے اور اُسے (یعنی شیطان کو) تم سے دُور بھگاتی ہے ،یوں شیطان دوبارہ تمہارے دِل میں براگُمان ڈالتے ہوئے ڈرے گا کہ کہیں تم پھر اپنے بھائی کی رِعایت اور اُس کے لئے دُعائے خیر میں مشغول نہ ہوجاؤ۔‘‘ [15] (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۸تا۱۵۲)
[1] ۔۔۔۔۔ شیطان کے بعض ہتھیار، ص۳۲۔
[2] ۔۔۔۔ معجم کبیر، باب من اسمہ الحارث، ج۳،ص۲۲۸، حدیث: ۳۲۲۷ملتقطا۔
[3] ۔۔۔۔۔ عمدۃ القاری ،کتاب البر والصلۃ، باب ما ینھی۔۔۔الخ، ج۱۵، ص۲۱۸، تحت الحدیث: ۶۰۶۵۔
[4] ۔۔۔۔۔ عمدۃ القاری ،کتاب البر والصلۃ، باب ما ینھی۔۔۔الخ، ج۱۵، ص۲۱۸، تحت الحدیث: ۶۰۶۵۔
[5] ۔۔۔۔۔ احیاء العلوم ، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ج۳،ص۱۸۶۔
[6] ۔۔۔۔۔ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الرابع والعشرون من ۔۔۔الخ، ج۲، ص۱۳ملخصًا۔
[7] ۔۔۔۔۔ روح المعانی ،پ ۲۶،الحجرٰت، تحت الآیۃ: ۱۲،ج۲۶، ص۴۲۹ ملخصاً۔
[8] ۔۔۔۔۔ بدگمانی، ص۲۱ بتصرف قلیل۔
[9] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ج۳، ص۱۸۶۔
[10]۔۔۔۔ تنبیہ المغترین، الباب الثانی فی جملۃ اخری۔۔۔الخ،ومن اخلاقھم رقۃ قلوبھم۔۔۔الخ، ص۱۰۷.
[11] ۔۔۔۔ فیض القدیر، ج۳، ص۱۵۷۔
[12]۔۔۔۔ فتاویٰ رضویہ، ج۲۲، ص۴۰۰۔
[13] ۔۔۔۔۔ رسالہ قشیریۃ، باب الصحبۃ، ص۳۲۸۔
[14] ۔۔۔۔۔ بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، ج۴، ص۲۶۲، حدیث: ۶۵۶۱۔
[15] ۔۔۔۔۔ احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان ، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ج۳، ص۱۸۷۔