سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا بھینسوں کا باڑہ ہے جس میں پچاس بھینسیں ہیں۔ ان بھینسوں کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟ہم ان کو چارہ خرید کر ہی کھلاتے ہیں ۔
جواب: اگر بھینسیں بیچنے کے لئے خریدی ہیں تو یہ بھینسیں مالِ تجارت ہوں گی اور اس صورت میں ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی لیکن اگر یہ بھینسیں دودھ کے لئے رکھی ہوئی ہیں کہ ان کا دودھ بیچنا مقصود ہے تو پھر یہ مالِ تجارت نہیں اور ان کو چارہ بھی خرید کر کھلایا جاتا ہے لہٰذا ان پر زکوٰۃ نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانور جن پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے ان کو سائمہ جانور کہتے ہیں زکوۃ صرف ان ہی پر ہوتی ہے لیکن ان کی اپنی شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سال کا اکثر حصہ مفت چرتے ہوں اور ان سے مقصود صرف دودھ حاصل کرنا یا فربہ کرنا ہو۔ اگر وہ سال کا اکثر حصہ مفت نہیں چرتے بلکہ انہیں چارہ خرید کر کھلایا جاتا ہے جیسے باڑے کی بھینسیں تو وہ سائمہ جانور میں شامل نہیں لہٰذا ن پر زکوٰۃ نہیں۔
ہاں اگر بیچنے کی نیت سے جانور خریدے ہوں جیسے بہت سے لوگ گائے ، بکرے وغیرہ خرید کر رکھتے ہیں کہ قربانی پر بیچیں گے تو اب ان پر مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ لازم ہوگی اور اس صورت میں زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے دن ان کی جو مالیت ہوگی اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم