باپ اگراپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی قربانی کرناچاہے توکیاحکم ہے؟

سوال:باپ اگراپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی قربانی کرناچاہے توکیاحکم ہے؟

جواب:نابالغ اولادکی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگرکردینامستحب عمل ہے، کرے گاتوثواب پائے گااورنہ کرے تو گنہگار نہیں۔ 

       فتاوی عالمگیری میں ہے:

       ’’وفی الولد الصغیر تستحب ولا تجب‘‘

       اور(قربانی)نابالغ بچے کی طرف سے مستحب ہے،واجب نہیں ہے۔

(عالمگیری،ج5، ص293)

       فتاوی خانیہ میں ہے:

       ”وفی الولد الصغیرعن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی روایتان فی ظاھرالروایۃ یستحب ولایجب بخلاف صدقۃ الفطروروی الحسن عن أبی حنیفۃرحمہ اللہ تعالی انہ یجب أن یضحی عن ولدہ الصغیروولدولدہ الذی لاأب لہ والفتوی علی ظاھرالروایۃ“

       ترجمہ:نابالغ بچے پرقربانی واجب ہونے کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے دو روایتیں  ہیں : ظاہرالروایہ میں ہے کہ والدپربچے کی قربانی مستحب ہے ،واجب نہیں بخلاف صدقہ فطراورامام حسن نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی کہ والدپراپنے چھوٹے بچے اورایسے پوتے جس کاوالدنہ ہو،کی طرف سے قربانی واجب ہے اورفتوی ظاہرالروایہ(واجب نہیں)پرہے۔                                 

(فتاوی خانیہ ،کتاب الاضحیۃ،ج03،ص345)

       فتاوی رضویہ میں ہے:

       ’’اولادِصغارکی طر ف سے قربانی اپنے مال سے کرناواجب نہیں،ہاں مستحب ہے۔اورقربانی جس پرواجب ہے اس پرایک ہی واجب ہے زیادہ نفل ہے۔چاہے ہزارجانورقربانی کرے گاثواب ہے۔ نہ کرے گاکچھ مواخذہ نہیں۔

       فی الدرالمختار:’’تجب التضحیۃ عن نفسہ لاعن طفلہ علی الظاھر بخلاف الفطرۃ،شاۃ اوسبع بدنہ  اھ ملتقطا،وفی الخانیۃ فی ظاھر الروایۃ یستحب ولایجب بخلاف صدقۃ الفطر۔والفتویٰ علی ظاھر الروایۃ اھ ملخصا‘‘

       درمختارمیں ہے:قربانی خوداپنی طرف سے واجب ہے،نابالغ اولادکی طرف سے اس پرواجب نہیں،ظاہرقول کے مطابق،بخلاف فطرانہ کے،قربانی کے لئے بکری یااونٹ یاگائے کاساتواں حصہ واجب ہے۔اھ ملتقطا،اورخانیہ میں ہے کہ ظاہرالروایۃ یہ کہ نابالغ کی طرف سے مستحب ہے واجب نہیں بخلاف صدقۂ فطر کے،اورفتویٰ ظاہرروایۃ پرہے اھ ملخصا۔

(فتاوی رضویہ،ج20،ص454)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے