بخشش اللہ کی رحمت سے ہوگی تو نیک اعمال کیوں کئے جاتے ہیں ؟

سوال:  کسی نے پوچھا ہے کہ اگر سب اللہ کی رحمت اور فضل سے بخشے جائیں گے، اعمال کی وجہ سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا، تو پھر ہمیں نیک اعمال کرنے کی  کیاضرورت ہے ؟ہم نیک اعمال کیوں کرتے ہیں؟

جواب:  بخشش اللہ کی رحمت  ہی سے ہوگی ،جنت کا داخلہ بھی محض اس کی رحمت کے صدقہ ہوگا، کوئی بھی صرف اپنے اعمال کے بھروسے پر بخشش کا حقدار نہیں ہوگا مگر نیک اعمال کے ذریعے اللہ کی رحمت کا اپنے آپ کو حقدار بنانے کی کوشش ہمیں کرنی ہے نہ کہ اس  کی نافرمانیوں کے ذریعے اس کے غضب کا حقدار بننا  ہے کہ جنت کا داخلہ جو اللہ پاک کی رحمت سے ہے اس رحمت کا حقدار ہونا خود نیک اعمال کی بدولت ہوگا۔

   امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’نیک اعمال کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق ( قرآن وحدیث میں موجود) دلائل کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بندہ اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے جنت تک پہنچ گیا تو یہ اس کے اِطاعت و عبادت بجا لانے کے بعد ہو گا …کیونکہ اللہ عزوجل کی رحمت اس کے نیک بندوں کے قریب ہوتی ہے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ بندے کا صاحب ِایمان ہونا ہی جنّت میں داخلے کے لئے کافی ہے ( اور عمل کی ضرورت نہیں)  تو ہم کہیں گے کہ آپ کا کہنا درست ہے، مگر اسے جنت میں جانا کب نصیب ہو گا؟ … وہاں تک پہنچنے کے لئے کافی دشوار گزار گھاٹیوں اور پُر خار وادیوں کا سامنا کرنا پڑے گا…سب سے پہلا مرحلہ تو اِیمان کی گھاٹی سے بحفاظت گزرنا ہے… کیا خبر بندہ اِیمان سلامت لے جانے میں کامیاب ہوتابھی ہے یا نہیں؟ ( اللہ عزوجل ہمارااِیمان سلامت رکھے۔ اٰمین ) اور اگر(کامیاب ہو کر )  جنت میں داخل ہو بھی گیا تَو پھر بھی مفلس جنّتی ہوگا،چنانچہ : حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا : اے میرے بندو!  میری رحمت سے جنّت میں داخل ہو جاؤ اور اسے اپنے اَعمال کے مطابق تقسیم کر لو۔ (بیٹے کو نصیحت، صفحہ 14۔15، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید فرماتے ہیں:”امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعلی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم اِرشاد فرماتے ہیں :’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نیک اعمال اپنائے بغیر داخلِ جنّت ہو گا، تو وہ جھوٹی اُمید و آس کا شکار ہے ۔ اور جس نے یہ خیال کیا کہ نیک اعمال کی بھر پور کوشش سے ہی جنّت میں داخل ہو گا، تو گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مُستغنی و بے پرواہ سمجھ بیٹھا ہے ۔ “

   حضرت سیدنا  حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ الولی فرماتے ہیں:” اچھے اَعمال کے بغیر جنت کی طلب گناہ سے کم نہیں ۔ “ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہی ارشاد گرامی ہے کہ حقیقی بندگی کی علامت یہ ہے کہ بندہ عمل نہ چھوڑے بلکہ عمل کو اچھا سمجھنا چھوڑ دے۔

   سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَابَعْدَالْمَوْتِ وَ الْاَحْمَقُ مَن اَتْبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَاوَتَمَنَّی عَلَی اللہِ یعنی : عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا مُحاسبہ کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے اور اَحمق و نادان وہ ہے جو نفسانی خواہشات کی پیروی کرے اور(نفسانی خواہشات وممنوعات کوترک کئے بغیر)اللہ عزوجل سے عفوودرگزراورجنت کی اُمید رکھے۔ “ (بیٹے کو نصیحت، صفحہ 16۔17، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نیز اللہ پاک کو معلوم  ہے کہ کون  جنتی ہے کون معاذ اللہ جہنمی،پھر بھی اس نے نیک اعمال فرض کیے ہیں  کہ جو جس کے لیے پیدا کیا گیا  اس کے لیے وہ اعمال آسان کر دیے جاتے ہیں،یوں گویا  بندہ اپنا امتحان کر سکتا ہے کہ جیسا عمل ویسا ٹھکانہ ہوگا،لہٰذا نیک عمل کروں تاکہ اللہ پاک کی رحمت کا حقدار بن کر جنت پا سکوں۔اور جیسا سوال میں آپ نے کہا کہ پھر نیک اعمال کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح کا خیال ظاہر کرنے پر حدیث پاک میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حکم ارشاد فرمایا تھا کہ عمل کرو، عمل کرتے رہو ہر کسی کو وہی میسر ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا، جو اہلِ سعادت میں سے ہوگا اس کو اہلِ سعادت کا عمل اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا اس کو اہلِ شقاوت کا عمل میسر ہوگا۔

   فتاویٰ رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’قال تعالٰی ( اﷲ تعالی نے فرمایا۔ت) وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا  ۔(اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا، تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔ت) ۔اگرچہ ازل میں ٹھہر چکا کہ: فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں۔ت) ۔پھر بھی اعمال فرض کیے کہ جس کے مقدر میں جو لکھا ہے اسے وہی راہ آسان ، اور اسی کے اسباب مہیا ہوجائیں۔

   قال تعالٰی  (اﷲ تعالی نے فرمایا ۔ت) فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْیُسْرٰى ۔(تو بہت جلد ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے۔ت)

   وقال تعالٰی (اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔ت)فَسَنُیَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى (تو بہت جلد ہم اُسے دشواری مہیا کردیں گے۔ ت)

   اسی لیے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دوزخی ، جنتی سب لکھے ہوئے ہیں، اور صحابہ نے عرض کی: یارسول اﷲ! پھر ہم عمل کاہے کو (یعنی کس لئے) کریں،ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھیں کہ جو سعید ہیں آپ ہی سعید ہوں گے اور جو شقی ہیں ناچار شقاوت پائیں گے۔ فرمایا : نہیں بلکہ عمل کیے جاؤ کہ ہر ایک جس گھر کے لیے بنا ہے اُسی کا راستہ اُسے سہل کردیتے ہیں، سعید کو اعمالِ سعادت کا اور شقی کو افعالِ شقاوت کا۔ پھر حضور نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں۔

   اخرجہ الائمۃ احمد والبخاری و مسلم وغیرہم عن امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ قال : کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی جنازۃ فاخذشیئا فجعل ینکت بہ الارض فقال مامنکم من احد الاّوقد کتب مقعدہ من النار ومقعدہ من الجنۃ قالو ا یارسول ﷲ ! أ فلا نتکل علی کتابنا وندع العمل (زادفی روایۃ فمن کان من اھل السعادۃ فسیصیرالٰی عمل اھل السعادۃ ومن کان من اھل الشقاء فسیصیر الٰی عمل اھل الشقاوۃ ) قال اعملوا فکل میسر لما خلق لہ امّا من کان من اھل السعادۃ فییسر لعمل اھل السعادۃ واما من کان من اھل الشقاء فییسرلعمل الشقاوۃ ثمّ قراء: فاما من اعطٰی واتقٰی وصدّق بالحسنّٰی الایۃ  ۔(امام احمد، بخاری اور مسلم وغیرہ نے امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ نے کوئی چیز پکڑی اور زمین کو کریدنے لگے اور فرمایا تم میں ایساکوئی نہیں جس کا ایک ٹھکانہ دوزخ میں اور ایک ٹھکانہ جنت میں نہ لکھا جاچکا ہو۔ صحابہ نے عرض کی: یارسول اﷲ! کیا ہم تحریر پر بھروسہ کرکے عمل کو چھوڑ نہ دیں۔ ( ایک روایت میں یہ زائد ہے کہ جو اہلِ سعادت میں سے ہے وہ عنقریب اہل سعادت کے عمل کی طرف اور جو اہل شقاوت میں سے ہے وہ عنقریب اہلِ شقاوت کے عمل کی طرف راغب ہوگا) آپ نے فرمایا: عمل کرتے رہو ہر کسی کو وہی میسر ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا، جو اہلِ سعادت میں سے ہوگا اس کو اہلِ سعادت کا عمل اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا اس کو اہلِ شقاوت کا عمل میسر ہوگا۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی تو وہ جس نے دیا اور پرہیزگاری کی اور سب سے اچھی چیز کو سچ مانا ۔ت)

   یہاں سے ظاہر ہوا کہ اگر تدبیر مطلقاً مہمل ( بے کار) ہو تو دین و شرائع (قوانین  شرع) وانزالِ کتب (کتابیں  اتارنا) وارسال رُسُل (رسولوں کو بھیجنا) و اِتیانِ فرائض (فرائض کا کرنا) و اجتناب محرمات (حرام کاموں سے بچنا) معاذ اﷲ ! سب لغو و فضول و عبث ٹھہریں۔ آدمی کی رسی کاٹ کر بجار (آزاد چھوٹا ہوا سانڈ )کردیں۔ دین و دنیا سب یکبارگی برہم ہوجائیں۔ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ  العلی العظیم  ( نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی طرف سے،ت)

   نہیں نہیں بلکہ تدبیر بے شک مستحسن ہے، اور اُس کی بہت صورتیں مندوب و مسنون ہیں، جیسے دُعا و دوا۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد29،ص 309 تا 311، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے