عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت
حدیث 1 : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشورا کا روزہ خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الصوم )
حدیث 2 : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں : ” رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض کے بعد افضل نماز صلاۃ اللیل ( یعنی رات کی نماز ) ہے ۔” ( صحیح مسلم ، کتاب الصوم )
حدیث 3 : ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! رمضان کے علاوہ میں کس مہینے میں روزے رکھوں ؟ ۔ ارشاد فرمایا : ” اگر تمھیں رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنے ہوں تو محرم کے روزے رکھو کہ یہ اللہ پاک کا مہینہ ہے ، اس مہینے میں ایک دن ہے جس میں اللہ پاک نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسروں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا ۔ ( مسند امام احمد )
عہد رسالت اور یوم عاشورا
جب حضور نبی اکرم ﷺ مدنیہ شریف تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی بھی عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ ﷺ نے پوچھا : آج کے دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ ۔ یہودیوں نے عرض کی : یہ عضمت والا دن ہے ، یہ وہ دن ہے جس میں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلا اور ان کی قوم کو نجات دی ، فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا ، لہذا موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : موسی علیہ السلام کی موافقت کرنے میں تمھارے بہ نسبت ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں تو حضور ﷺ نے خود روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمایا ۔
(صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، باب صوم یوم عاشوراء )
عاشورا کا روزہ فرض تھا
شروع میں عاشورا کا روزہ مسلمانوں پر فرض تھا پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی ۔ اب عاشورا کا روزہ رکھنا فرض نہیں ہے مگر اس دن روزہ رکھنے والے کے لیے بہت ثواب ہے ۔
یوم عاشورا کے روزے رکھنے کی فضلیت
صحیح مسلم میں حضرت قتاہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ” مجھے اللہ ( عزوجل ) پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔ ” ( صحیح مسلم ، کتاب الصیام )
اور ایک دوسری حدیث میں ہے : حضور ﷺ نے فرمایا : ” عاشورا کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے ۔ ( مسند امام احمد )