سوال: کیا اللہ پاک کو ایشور، رام یا بھگوان یا گاڈ کہہ سکتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ کو رام یا بھگوان کہنا تو کفرہے، لیکن ایشورہندی زبان میں معبودِ برحق کے ناموں میں سے ایک ہے اور بظاہر اس کے معنی میں کوئی خرابی نہیں جیسے ہندی زبان کے دیگر ناموں مثلاً رام وغیرہ میں ہے،لہٰذا اللہ تعالیٰ کو ایشور کہنا جائز ہے۔ اسی طرح لفظ گاڈ کا معنی محافظ ہے اور یہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوتا ہےلہٰذا اس لفظ کا استعمال کرنا بھی جائز ہے لیکن چونکہ خدا کو ایشور کہنا ہندوؤں کا اور گاڈ کہنا عیسائیوں کا عرف وشعارہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو ایشور یا گاڈ کہنےسے بچنا چاہیے۔
خدا کو رام کہنے کےمتعلق صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :”خدا کو رام کہنا ہندؤوں کا مذہب ہے،وہ چونکہ اسے ہر شے میں رما ہوا یعنی حلول کئے ہوئے جانتے ہیں ، اس وجہ سے اسے رام کہتے ہیں اوریہ عقیدہ کفر ہے اور اسے رام کہنا بھی کلمۂ کفر ہے۔“(فتاوی امجدیہ،جلد2، صفحہ418، مکتبہ رضویہ،کراچی)
اللہ تعالیٰ کو بھگوان کہنے کے متعلق شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:’’اللہ عزوجل کو بھگوان کہنا کفر ہے۔‘‘(فتاوی شارح بخاری،جلد2،صفحہ296، مکتبہ برکات المدینہ،کراچی)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:”ہر“زبانِ ہندی میں معبود برحق کے اسما سے ہےجیسےایشور اور بظاہر اس میں کوئی معنی محال نہیں جیسے رام میں ہیں کہ ہر چیز پر رما ہونے اور سرایت وحلول پر دلیل ہے۔“(فتاوٰی رضویہ،جلد15،صفحہ307،رضافاؤنڈیشن، لاہور)
مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”مجدّد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرّہ نے فتاوی رضویہ، جلد ششم، ص:210 میں ایشور کو معبود برحق کے اسماء میں سے شمار کیا۔ گاڈ انگریزی لفظ ہے، اس کے معنی محافظ کے ہیں ان کے عرف میں خدا کو بھی گاڈ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اللہ عزوجل کو ایشور اور گاڈ کہنےمیں کوئی حرج نہیں۔لیکن یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ایشور وغیرہ خدا کو کہنا ہندوؤں کا عرف ہےاور گاڈ کہنا انگریزوں کا،اگر کوئی اجنبی آدمی کسی کے سامنے یہ کہے ’ایشور چاہے گا تو یہ ہوگا‘تو سننے والا اسے ہندو سمجھے گا ، اسی طرح اگر کوئی کہے کہ گاڈ چاہے تو یہ ہوگا تو اسے عیسائی سمجھے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معبود برحق کو ایشور وغیرہ کہنا ہندوؤں کا شعار ہے اور گاڈ کہنا نصاریٰ کا اس لئے مسلمان ایشور، گاڈ وغیرہ کہنے سے احتراز کریں۔“(فتاوی شارح بخاری ،جلد1،صفحہ173،مکتبہ برکات المدینہ کراچی،ملخّصاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم