اللہ کےناموں سےپہلےلفظ عبد لگانےکاحکم

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی انسان کانام اسماءِ الٰہیہ ( اللہ تعالیٰ کے ناموں )میں سےرکھا جائے ،تو کن ناموں  کے شروع میں لفظ عبد لگانا ضروری ہوتا  ہے اور کن میں ضروری نہیں ہوتا ؟

 
 

جواب: اللہ تعالیٰ  کے ناموں میں سے  جونام اس کےساتھ خاص ہیں ،مثلاً رحمٰن،قدوس ،قیوم وغیرہ ،ان میں سےجب کوئی نام  انسان کے لیے رکھا جائے ،تو اس کی طرف لفظ ِعبد کی اضافت کرنا یعنی ان کے شروع میں عبد لگانا  ضروری  ہوتا ہے اورایسے نام (جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ) عبد کی اضافت کے  بغیر کسی انسان کے لیے استعمال کرنا،ناجائز ہے اور بعض اوقات کفر ہوتا ہے ۔ اس لئے کسی بھی شخص کو رحمٰن، قیوم اور قدوس وغیرہ ہر گز نہ کہا جائے ، بلکہ ضروری ہے عبدالرحمن ، عبدالقیوم، عبدالقدوس ہی کہا جائے۔ 

    اور جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں مثلاً علی ،رشید ،کبیر یا بدیع  وغیر ہ ، ان کو عبد  کے ساتھ اور بغیر عبد  کے  دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔

    جو اسماء ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، وہ بغیر اضافت کسی انسان کے لیے استعمال نہیں کر سکتے ، اس سے متعلق مجمع الانہر میں ہے:’’اطلق  علی المخلوق من الاسماء  المختصۃ  بالخالق  نحو القدوس والقیوم و الرحمن  و غیرھا  یکفر‘‘ترجمہ اگر  کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اسماء مختصہ (یعنی مخصوص ناموں)میں سے کسی نام کا اِطلاق مخلوق پر کرے جیسے اِسے(یعنی مخلوق کے کسی فرد کو)قدوس، قیوم یا  رحمن کہے تو یہ کفر ہو جائے گا۔

(مجمع الانهر، جلد2 صفحہ504، مطبوعہ کوئٹہ)

    جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ، ان سے  متعلق درمختار میں ہے:’’و جا ز التسمیۃ  بعلی و رشید  و غیرھما  من الاسماء المشترکۃ  و یراد فی حقنا  غیر ما یراد  فی حق  اللہ تعالی ،لکن التسمیۃ  بغیر ذلک  فی زماننا  اولی   لان  العوام  یصغرونھا  عند  النداء ‘‘ ترجمہ:اسما ء مشترکہ میں سے علی ،رشید  وغیرہ نام رکھنا جائز ہے  اور (ان اسماء سے )جو معنی  اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے ،لیکن ہمارے زمانے میں ایسے ناموں کے علاوہ نام رکھنا بہتر ہے کیونکہ عوام پکارتے وقت ان ناموں کی تصغیر کرتے  ہیں  ۔        

(الدرالمختار مع ردالمحتار ،کتاب الحضر وا لاباحۃ،جلد9،صفحہ689,688،مطبوعہ کوئٹہ)       

    فتاوی مصطفویہ میں ہے :’’بعض اسماء  الٰہیہ  جو اللہ عزو جل  کے لیے مخصوص ہیں جیسے اللہ ،قدوس ، رحمن ،قیوم وغیرہ انہیں کا اطلاق غیر پر کفر ہے ، ان اسماء کا نہیں ،جو اس کے ساتھ مخصوص نہیں جیسے عزیز ،رحیم ، کریم، عظیم، علیم، حی وغیرہ ۔بعض وہ ہیں جن کا اطلاق مختلف فیہ ہے ،جیسے قدیر،مقتدر  وغیرہ ۔‘‘

( فتاوی مصطفویہ ،صفہ90،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

    بہار شریعت میں ہے:’’بعض اسماء الٰہیہ جن کا اطلاق غیراﷲ پر جائز ہے، ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے، جیسے علی، رشید، کبیر، بدیع ، کیونکہ بندوں کے ناموں میں وہ معنی مراد نہیں ہیں جن کا ارادہ اﷲتعالیٰ پر اطلاق کرنے میں ہوتا ہے اور ان ناموں میں الف ولام ملا کر بھی نام رکھنا جائز ہے، مثلاً العلی، الرشید۔ ہاں اس زمانہ میں چونکہ عوام میں ناموں کی تصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے،لہٰذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے۔خصوصاً جبکہ اسماء الٰہیہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مثلاً عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مضاف الیہ سے مراد اﷲ تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں تصغیر اگر قصداً ہوتی تو معاذاﷲکفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبود برحق کی تصغیر ہے مگر عوام اور ناواقفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے، اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اُن کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ احتمال ہو۔‘‘

(بہار شریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ602،مکتبۃ المدینہ،کراچی)                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے