کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگر نمازی قعدہ اخیرہ کرنے کے بعد بھول کر کھڑا ہو جائے اور یاد آنے پر حالتِ قیام میں ہی سلام پھیر دے، تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی یا سجدہ سہو کرنا ہوگا اور سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے نماز کا اعادہ لازم ہو گا؟
(2) بہار شریعت میں ہے کہ :’’اگر قیام ہی کی حالت میں سلام پھیر دیا ،تو بھی نماز ہو جائے گی،مگر سنت ترک ہوئی۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 4، صفحہ 712) اس سے سمجھ آتا ہے کہ بغیر سجدہ سہو وغیرہ کے نماز درست ہو جائےگی، کیونکہ ترکِ سنت سے سجدہ سہو/ اعادہ نماز لازم نہیں ہوتا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی شخص قعدہ اخیرہ کے بعد بھولے سے کھڑا ہو گیا اور یاد آنے پر حالتِ قیام میں ہی سلام پھیر دیا، تو اس کے فرض ادا ہو جائیں گے، لیکن نماز کا اعادہ واجب ہو گا۔ تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ کے بعد بھولے سے کھڑے ہو جانے پر جب تک اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو،اس پر واجب ہوتا ہے کہ لوٹ آئے، (اعادۂ تشہد کے بغیر) سجدہ سہو کرے اور سلام پھیر دے، لیکن اگر کوئی واپس نہ پلٹا اور حالتِ قیام میں ہی سلام پھیر دیا، تو سجدہ سہو ترک کرنے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہو جائے گی۔ یہاں سجدہ سہو واجب ہونے کی وجہ ’’واجب کو اپنے محل سے مؤخر کرنا‘‘ ہے، یعنی قعدہ اخیرہ میں تشہد، درود شریف اور دعائے ماثورہ کے بعد بغیر کسی اجنبی فاصل کے سلام پھیرنا واجب ہے اور دعائے ماثورہ کے بعد قیام کرنا اجنبی فاصل ہے، لہذا بھولے سے ایسا ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو اور سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہو گا۔نیز بیٹھ کر سلام پھیرنا سنت ہے، تو حالتِ قیام میں سلام پھیر دینا ترکِ واجب کے ساتھ ترکِ سنت بھی ہے۔
غنیۃ المتملی میں ہے:”(وان قعد فی آخر) الرکعۃ(الرابعۃ ثم قام) قبل ان یسلم یعود ایضا ما لم یسجد ویسلم لیخرج عن الفرض بالسلام لانہ واجب ولایسلم قائما لانہ غیر مشروع فی الصلوۃ المطلقۃ وامکنہ الاقامۃ علی وجھہ بالعود الی القعدۃ ویسجد للسھو لانہ اخر واجبا وھو السلام بسبب فعل زائد لم یلتحق بالصلوۃ، بخلاف ما لو اطال الدعاء بعد التشھد لانہ یلتحق بھا فلا یعد تاخیرا“ ترجمہ: اگرچوتھی رکعت میں قعدہ کیا، پھر سلام پھیرنے سے پہلے کھڑا ہوگیا، تو جب تک سجدہ نہ کیا ہو، لوٹ آئے اور سلام پھیرے تاکہ سلام کے ذریعہ فرض نماز سے باہر ہو کہ یہ واجب ہے اور کھڑے کھڑے سلام نہ پھیرے کہ یہ نمازِ مطلقہ میں مشروع نہیں اور قعدہ کی طرف لوٹ کر مشروع طور پرسلام پھیرنا ،ممکن ہے، اور سجدہ سہو کرے کیونکہ اس نے واجب میں ایسے فعل کے سبب تاخیر کی جو نماز کے ساتھ لاحق نہیں اور وہ واجب سلام ہے، بخلاف اس کے کہ اگر اس نے تشہد کے بعد دعا طویل کی ہو، کیونکہ یہ نماز کے ساتھ ملحق ہے، پس دعا کو لمباکرنا سلام میں تاخیر شمار نہیں کیا جائے گا۔(غنیۃ المتملی، صفحہ 463، مطبوعہ کوئٹہ)
واپس پلٹنا واجب اور حالتِ قیام میں سلام پھیرنا مکروہ ہے۔ چنانچہ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان التسلیم فی حالۃ القیام غیر مشروع وامکنہ اقامتہ علی وجھہ بالقعود وما دون الرکعۃ محل الرفض ثم اذا اعاد لا یعید التشھد بحر واستفید من التعلیل ان العود واجب فسلامہ قائما مکروہ“ ترجمہ :کیونکہ قیام کی حالت میں سلام مشروع نہیں اور اسے بیٹھ کر مشروع طور پر ادا کیا جاسکتا ہے اورجو ایک رکعت سے کم ہے چھوڑنے کے قابل ہے، پھر اگر لوٹے تو تشہد کا اعادہ نہ کرے،بحر۔اور علت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ لوٹنا واجب ہے اور اس کا کھڑے کھڑے سلام پھیرنا مکروہ ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ، جلد1، صفحہ 314، مطبوعہ کوئٹہ)
سلام میں تاخیر سجدہ سہو کا موجب ہے۔ چنانچہ خزانۃا لمفتیین میں ہے: ’’اذا سھی عن الاذکار لا یجب کما اذا سھی عن التعوذوالثناء و تکبیرات الرکوع و السجود وتسبیحاتھا الا فی خمس مواضع: تکبیرات الاعیاد والقنوت والتشھد والقراءۃ وتاخیر السلام‘‘ ترجمہ: جب اذکارِ نماز بھول جائیں، تو سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا، جیسے تعوذ، ثناء، تکبیراتِ رکوع و سجود اور ان کی تسبیحات بھولنے پر (سہو نہیں)، لیکن پانچ جگہ: تکبیراتِ عیدین، قنوت، تشہد اور قراءت کے بھولنے اور سلام میں تاخیر کرنے سے( سجدہ سہو لازم ہو گا)۔(خزانۃ المفتیین، صفحہ 58، مخطوطہ غیر مطبوعہ)
قعدہ اخیرہ میں دعائے ماثورہ کے بعد بغیر اجنبی فاصل کے سلام پھیرنا واجب ہے، جبکہ یہاں قیام سے واجب ترک ہو گا۔ طوالع الانوار میں ہے: ’’(بتاخیر السلام) الذی ھو واجب عن محلہ وکان ذلک عقیب فراغہ من التشھد والصلاۃ والادعیۃ فحیث تخلل القیام‘‘ ترجمہ: سلام میں تاخیر یعنی واجب کو اپنے محل سے مؤخرکرنے کے سبب (سجدہ سہو لازم ہو گا) اور سلام کا محل قعدہ اخیرہ میں تشہد، درود اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ہے، تو یہاں قیام مخل ہو گیا۔(طوالع الانوار، جلد2، حصہ2، صفحہ 378، مخطوطہ غیر مطبوعہ)
لہذا قعدہ اخیرہ کے بعد محض قیام سے ہی سجدہ سہو لازم ہو جائے گا، جبکہ سہواً ہو۔ منیۃ المصلی میں ہے: ’’ولو قام الی الخامسۃ ساھیا یجب بمجرد القیام (ملتقطا)‘‘ یعنی اگر نمازی بھول کر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو اس پر محض قیام کرنے سے سجدہ سہو لاز م ہو جائے گا۔(منیۃ المصلی، فصل فی سجود السھو، صفحہ 165، مطبوعہ ملتان)
اور اگر کسی نے لازم شدہ سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز کا اعادہ کرنا ہو گا۔ درمختار میں ہے:’’تعاد وجوباً فی العمد والسھو ان لم یسجد‘‘ یعنی اگر جان بوجھ کر واجب ترک کیا یا بھول کر ترک کیا اور سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 181، مطبوعہ پشاور)
نیز حالتِ قیام میں سلام ترکِ سنت بھی ہے۔ چنانچہ امداد الفتاح میں ہے: ’’(ان قعد الاخیر ثم قام عاد وسلم) ۔۔ لو سلم قائماً لم تفسد صلاتہ وان کان تارکاً للسنۃ، لان السنۃ التسلیم جالساً‘‘ ترجمہ: (اگر قعدہ اخیرہ کے بعد کھڑا ہو گیا، تو لوٹ آئے اور سلام پھیر دے)،۔۔ اگر حالتِ قیام میں ہی سلام پھیر دیا، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی، اگرچہ وہ سنت کا تارک ہو گا، کیونکہ بیٹھ کر سلام پھیرنا سنت ہے۔(امداد الفتاح، کتاب الصلوۃ، باب سجود السھو، صفحہ 519، مطبوعہ کوئٹہ)
(2) بہار شریعت کے مسئلے اور فتوی میں بیان کردہ حکم میں تعارض نہیں ہے، کیونکہ بہار شریعت میں خلافِ سنت ہونے کے ساتھ سجدہ سہو کا حکم بھی بیان کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے اولاً بہار شریعت کا مکمل جزئیہ ملاحظہ فرمائیں: ’’ اگر بقدر تشہد قعدۂ اخیرہ کر چکا ہے اور کھڑا ہوگیا، تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو، لوٹ آئے اور سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دے اور اگر قیام ہی کی حالت میں سلام پھیر دیا ،تو بھی نماز ہو جائے گی مگر سنت ترک ہوئی۔‘‘
یہاں اس جزئیے کے پہلے حصے میں واضح طور پر سجدہ سہو کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، اس کے بعد یہ الفاظ کہ ’’اگر قیام ہی کی حالت میں سلام پھیر دیا ،تو بھی نماز ہو جائے گی‘‘ سے مراد ’’فرض ادا ہو جانا‘‘ ہے اور فرض ادا ہو جانا، نماز کے ناقص (سجدہ سہو/ اعادہ واجب) ہونے کے منافی نہیں۔ نیز یہ الفاظ کہ ’’مگر سنت ترک ہوئی‘‘ سے مزید خلافِ سنت عمل کی نشاندہی ہے۔ پھر بہار شریعت میں اس مسئلہ کا ماخذ (یعنی جہاں سے یہ لیا گیا ہے) در مختار و رد المحتار ہے اور ماخذ میں بھی فرض ادا ہو جانے کے باوجود نماز کے ناقص ہونے کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
در مختار میں ہے: ’’(وان قعد فی الرابعۃ ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائماً صح، ثم الاصح ان القوم ینتظرونہ، فان عاد تبعوہ (وان سجد للخامسۃ سلموا) لانہ تم فرضہ، اذ لم یبق علیہ الا السلام‘‘ ترجمہ: اگر چوتھی رکعت میں قعدہ کیا، پھر کھڑا ہو گیا، تو لوٹ آئے اور سلام پھیر دے اور اگر حالتِ قیام میں ہی سلام پھیر دیا، تب بھی درست ہے، پھر اصح قول کے مطابق حکم یہ ہے کہ (ایسے امام کے) مقتدی انتظار کریں، اگر امام لوٹ آئے، تو اتباع کریں اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا، تو سلام پھیر دیں، اس لیے کہ اس کے فرض مکمل ہو گئے، کیونکہ اب اس پر فقط سلام پھیرنا باقی تھا۔
اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’(قوله اذ لم يبق عليه الا السلام) اشار به الى ان معنى تمام فرضه عدم فساده والا فصلاته ناقصة“ ترجمہ:ماتن کا یہ قول کہ” اب اس پر صرف سلام پھیرنا باقی ہے “اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے فرض تام ہوگئے کا معنی یہ ہے کہ یہ فرض فاسد نہیں ہوئے ، ورنہ اس کی نماز ناقص ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوۃ، باب سجدۃ السھو ، جلد 2، صفحہ 667، مطبوعہ پشاور)
ازالہِ اشکال:
اگر یہ درست تسلیم کر لیا جائے کہ ’’حالتِ قیام میں سلام پھیرنا محض خلافِ سنت ہے، وجوبِ سجدہ و اعادہ نماز کا سبب نہیں‘‘، تو اس سے بہار شریعت کے جزئیے میں تضاد لازم آئے گا، یوں کہ بہار شریعت کے اسی جزئیہ کے شروع میں ’’واپس پلٹنے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیرنے کا حکم بیان کیا گیا ہے‘‘، اگر حالتِ قیام میں سلام پھیر دینا محض خلافِ سنت مانا جائے، تو اسی سلام کو بیٹھ کر پھیرنے سے سجدہ سہو کیوں کر واجب ہو گا؟ کیونکہ محض ترکِ سنت سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں حالتِ قیام میں سلام پھیرنا محض خلافِ سنت نہیں، بلکہ ترکِ واجب بھی ہے اور جزئیہ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم