سوال: مفتی صاحب سے عرض ہے کہ اگر رمضان میں تنہا غلطی سے وتر جہر سے شروع کیا پھر یاد آنے پر سری قراءت کی اور سجدہ سہو کیا نماز کا حکم کیا ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگرسورج نکلنے سے پہلے وتر پڑھے ،خواہ ادایاقضاتونماز درست ہوگئی ،سجدہ سہو کی بھی حاجت نہیں تھی ۔ اور اگردن میں وترقضاپڑھتے وقت جہرکیاتھااوریہ بھول کرکیاتھاتوسجدہ سہوسے تلافی ہوگئی اورنمازدرست ہوگئی ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ :
رمضان یا رمضان کے علاوہ جہر( یعنی بلند آواز سے تلاوت)کرنے یا نہ کرنےکے اعتبار سے وتروں کا حکم عام جہری نمازوں کی طرح ہےاور جہری نمازوں کے متعلق اصول یہ ہے کہ جہری ادانماز،یونہی ایسی جہری قضا نماز جو جہری کے وقت میں پڑھی جائے،ان میں منفرد(یعنی تنہا نماز پڑھنے والے) کوجہر کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے،البتہ جہر افضل ہے۔جبکہ ایسی جہری قضا نماز جو سری کے وقت میں پڑھی جائے،اس میں منفرد پر سر یعنی آہستہ پڑھنا واجب ہے ۔
اس تفصیل کے مطابق منفرد ادا وتر ،یونہی قضاء وتر جو جہری نماز کے وقت ادا کرے، ان میں جہر کر سکتا ہے،بلکہ یہی افضل ہے ،البتہ سری نماز کے وقت قضا کیے جانے والے وتروں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اورواجب بھولے سے چھوٹے توسجدہ سہوسےاس کی تلافی ہوجاتی ہے ۔
درمختار میں ہے”(ويخير المنفرد فی الجهر) وهو أفضل“ترجمہ :اور(جہری قراءت والی نمازوں میں) منفرد کواختیارہے(کہ بلند آواز سے قراءت کرے یا آہستہ)لیکن بلند آواز سے قراءت کرنا افضل ہے ۔(درمختارمع ردالمحتار،ج 1،ص 533،دارالفکر، بیروت)
درمختارمیں ہے "(ويخافت) المنفرد (حتما) أي وجوبا (إن قضى) الجهرية في وقت المخافتة، كأن صلى العشاء بعد طلوع الشمس، كذا ذكره المصنف بعد عد الواجبات“ترجمہ:اورمنفرد جب جہری نماز کی قضا اس وقت پڑھے جس وقت میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے ،مثلاً عشاء کی قضا طلوع شمس کے بعد پڑھے تو اس صورت میں اس جہری نماز میں آہستہ قراءت کرنا منفرد پر واجب ہے ،جیسا کہ مصنف نے واجبات شمار کرنے کے بعد اسے ذکر کیا،
اس کے تحت رد المحتار میں ہے” قيد به لأنه إن قضى في وقت الجهر خير كما لا يخفى”ترجمہ:مصنف نے قضا کو اس وقت کے ساتھ خاص کیا جس وقت میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے کیونکہ اگر وہ اس وقت میں قضا پڑھے جس وقت میں جہری قراءت کی جاتی ہے تو اسے آہستہ و جہر سے پڑھنے میں اختیار ہوگا جیسا کہ مخفی نہیں۔”(رد المحتار علی الدر المختار،جلد1، صفحہ533،دار الفکر،بیروت)
رمضان یا غیر رمضان میں وتر کا حکم عام جہری نمازوں کی طرح ہے۔چنانچہ ردالمحتار میں ہے:” قوله :(فلو أم) أي فلو صلى المتنفل بالليل إماما جهر، ومقتضاه أن الوتر في غير رمضان كذلك لأن كلا منهما تكره فيه الجماعة على سبيل التداعي وبدونه لا،وإذا وجب الجهر في النفل يجب بترکھا في الوتر “شارح علیہ الرحمہ کا قول:اگر امامت کروائے یعنی اگر رات کو نفل پڑھنے والا امام ہو،تو جہر کرے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ رمضان کے علاوہ وتر کی نماز بھی اسی طرح ہو،کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں تداعی کے طور پرجماعت کروانا مکروہ ہےاور بغیر تداعی کے مکروہ نہیں،جب نفل میں جہر واجب ہے ،تو وتر میں اس کے ترک پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (رد المحتار علی الدرمختار،ج02،ص306،مطبوعہ :کوئٹہ)
منیہ اور اس کی شرح غنیہ میں ہے”(و) من الواجبات(الجھر) بالقراءۃ (فیما یجھر ) فیہ بھا کالفجر والجمعۃ والعیدین واولی المغرب والعشاء وکالتراویح والوتر فان الجھر فی جمیع ذلک واجب علی الامام“ترجمہ:اور جن نمازوں میں جہری قرات کی جاتی ہے ،ان میں جہر کرنا واجبات میں سے ہے ،جیسے فجر، جمعہ، عیدین،مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں، تراویح اور وتر ،ان سب میں امام پر جہر کرنا واجب ہے۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی،ص296،مطبوعہ :کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم