عاجزی واِنکساری
عاجزی وانکساری کی تعریف :
لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے ان کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر وکمتر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی وانکساری کہلاتا ہے۔[1](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۱)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں اِرشاد فرماتا ہے:( اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵))(پ۲۲، الاحزاب: ۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یادکرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۱،۸۲)
(حدیث مبارکہ)عاجزی کرنے والے کے لیے بلندی:
حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالتَّسْلِیْمنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرما تا ہے۔‘‘[2] (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۲)
عاجزی وانکساری کاحکم:
اپنے آپ کو تکبر سے بچانا اور عاجزی وانکساری اختیار کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، البتہ دیگر اَخلاق کی طرح عاجزی کے بھی تین درجے ہیں: (۱) اگر عاجزی ایسی ہو جس میں زیادتی کی طرف میلان ہو تو اسے تکبر کہتے ہیں اور یہ ناجائز وحرام وجہنم میں لے جانے والا مذموم کام ہے۔ (۲) اگر عاجزی ایسی ہو جس میں کمی کی طرف میلان ہو تو اسے کمینگی وذلت کہتے ہیں مثلاً کسی عالم دِین کے پاس کوئی موچی آئے اور وہ اس کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دے اور اسے اپنی جگہ بٹھائے، پھر آگے بڑھ کر اس کے جوتے سیدھے کرے اور پیچھے پیچھے دروازے تک جائے تو اس عالم نے ذلت ورسوائی کو گلے لگایا۔یہ ناپسندیدہ بات ہے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں اعتدال پسندیدہ ہے یعنی ہر حقدار کو اس کا حق دیا جائے۔ اس طرح کی عاجزی اپنے ساتھیوں اور ہم پلہ لوگوں کے ساتھ بہتر ہے۔عام آدمی کے لیے عالم کی طرف سے تواضع اسی قدر ہے کہ جب وہ آجائے تو کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرے،خندہ پیشانی سے گفتگو کرے، اس کے سوال کا جواب دینے میں نرمی برتے، اس کی دعوت قبول کرے، اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرےاور خود کو اس سے بہتر نہ سمجھے، بلکہ دوسروں کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ خوف رکھے نیز اسے حقارت کی نظر سے دیکھے نہ ہی چھوٹا سمجھے، کیونکہ اسے اپنے انجام کی خبر نہیں۔(۳) اگر عاجزی ایسی ہو کہ جس میں میانہ روی ہو یعنی اپنے ہم پلہ اور کم مرتبہ لوگوں کے ساتھ برابر کی عاجزی کرے، نہ تو خود کو ذلت وکمینگی والی جگہ پر پیش کرے، نہ ہی بلندی کی طرف میلان ہو تو ایسی عاجزی شرعاً محمود یعنی قابل تعریف، باعث اَجروثواب اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔[3](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۲، ۸۳)
عاجزی کا ذہن بنانے اور اپنانے کے گیارہ (11)طریقے:
(1) عاجزی کے فضائل کا مطالعہ کیجئے:عاجزی کرنے والے کے لیے فرشتے بلندی کی دعا کرتے ہیں۔٭عاجزی کرنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔٭ عاجزی کرنے والے بروز قیامت منبروں پر بیٹھے ہوں گے۔٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جسے محبوب رکھتا ہے اسے عاجزی بھی عطا فرماتا ہے۔٭عاجزی کرنے والے کو ساتویں آسمان تک بلندی عطا کی جاتی ہے۔٭عاجزی کرنے والے پراللہ عَزَّوَجَلَّ رحم فرماتا ہے۔[4] مزید فضائل کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘جلدسوم، ص۹۹۹سے مطالعہ کیجئے۔
(2)عاجزی سے متعلق بزرگانِ دِین کے فرامین کا مطالعہ کیجئے: ٭امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’بندہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے عاجزی اِختیار کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی لگام بلند کرتا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے مقرر فرشتہ کہتا ہے :اٹھ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجھے بلندی عطا فرمائے۔‘‘٭ اُمّ المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: ’’تم لوگ افضل عبادت یعنی عاجزی سے غافل ہو۔‘‘ ٭سیدنا یوسف بن اسباط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’زیادہ کوشش اور مجاہدے کی بنسبت تھوڑی عاجزی کافی ہے۔‘‘٭سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ’’عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے سامنے جھک جاؤ اور اس کی پیروی کرو اور اگر بچے یا کسی بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تو اسے قبول کرو۔‘‘٭سیدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’اصل عاجزی یہ ہے کہ تم دنیوی نعمتوں میں اپنے سے کمتر کے سامنے بھی عاجزی کا اظہار کرو حتی کہ تم یقین کرلو کہ تمہیں دنیوی اعتبار سے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔‘‘[5]مزید فرامین کے لیے ’’احیاء العلوم‘‘ جلد سوم، ص۱۰۰۲سے مطالعہ کیجئے۔
(3)عاجزی نہ کرنے کے نقصانات پر غور کیجئے:حضرت سیدنا قتادہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کو مال، جمال، لباس یا علم دیا گیا پھر اس نے اس میں عاجزی اختیار نہ کی تو یہ نعمتیں قیامت کے دن اس کے لیے وبال ہوں گی۔ حضرت سیدنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں: ’’جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت پر شکر ادا نہ کرے اور نہ ہی عاجزی کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس بندے سے اس کا دنیوی نفع بھی روک دیتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا ایک طبقہ کھول دیتا ہے، اب اللہ عَزَّ وَجَلَّ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔حضرت سیدنا زیاد نمیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی فرماتے ہیں: ’’زہد و تقویٰ اپنانے والا عاجزی کے بغیر بے پھل درخت کی طرح ہے۔‘‘حضرت سیدنا ابوعلی جوزجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس شخص کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے اس سے تواضع، خیر خواہی اور قناعت کو روک دیتا ہے۔‘‘[6]
(4)تکبر کے اَسباب وعلاج کی معرفت حاصل کیجئے:کیونکہ تکبر عاجزی کی ضد ہے، جب تک آپ تکبر کے اسباب کی معلومات حاصل کرکے ان کا علاج نہیں کریں گے تب تک آپ کی ذات میں عاجزی پیدا نہیں ہوگی۔تکبر کی تعریف، اَسباب اور علاج جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ۳۵۲ صفحات پرمشتمل کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ صفحہ۲۷۵اور ۹۷صفحات پر مشتمل کتاب ’’تکبر‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
(5)تکبر کی علامات سے خود کو بچائیے:کہ اس طرح خودبخود عاجزی پیدا ہو جائے گی۔تکبر کی چند علامات یہ ہیں: ٭منہ پھلالینا، ترچھی نظروں سے دیکھنا، سرکو ایک طرف جھکانا، ٭جب تک اس کے پیچھے چلنے والا کوئی نہ ہو وہ نہ چلے۔٭متکبر دوسروں کی ملاقات کے لیے نہیں جاتا۔٭متکبر اپنے قریب بیٹھنے والے سے نفرت کرتا ہے۔ ٭ متکبر مریضوں اور بیماروں کے پاس بیٹھنے سے بھاگتا ہے۔٭متکبر گھر میں اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرتا۔٭متکبر گھرکا سودا خود نہیں اٹھاتا۔٭ متکبر ادنیٰ لباس نہیں پہنتا۔ متکبر اپنے حسن وجمال اور طاقت وقوت پر فخر کرتا ہے۔ ٭متکبر اپنے علم پر بھی تکبر کرتا ہے۔[7]واضح رہے کہ یہ تکبر کی علامات ہیں لیکن جس میں یہ علامات پائی جائیں ضروری نہیں کہ وہ متکبر بھی ہو، اِس لیے کسی بھی مسلمان کی ذات میں اِن علامات کے ہوتے ہوئے اسے متکبر سمجھنا یا اسے متکبر کہنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔
(6)اپنے صلاحیتوں کے قصیدے پڑھنے سے بچیے: یہ خود پسندی ہے جو باطنی بیماری ہے، یہ ناجائز وممنوع وگناہ ہے، جب بندہ خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر عاجزی واِنکساری اس سے رخصت ہوجاتی ہے، لہٰذا خود پسندی سے اپنے آپ کو بچائیے تاکہ عاجزی وانکساری پیدا ہوا۔ خود پسندی کی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۳۵۲صفحات پر مشتمل کتاب ’’باطنی بیماریوں کی معلومات‘‘ صفحہ ۴۲ کا مطالعہ کیجئے۔
(7)محاسبۂ نفس کیجئے:عموماً بندے کے سامنے جب اس کی خوبیاں ہی بیان ہوں تو وہ تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور عاجزی نہیں کرتا کیونکہ عاجزی تو اپنی خوبیوں کو کم جاننے اور خامیوں کو زیادہ جاننے کا نام ہے۔لہٰذا محاسبۂ نفس کرے کہ اِس طرح اس کی خامیاں سامنے آجائیں گی اور اس کے لیے عاجزی کرنا آسان ہوجائے گا۔ حضرت سیدنا ابو سلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’بندہ اس وقت تک عاجزی نہیں کرسکتا جب تک اپنے آپ کو پہچان نہ لے۔‘‘[8]
(8)ہرمسلمان کو اپنے سے اعلیٰ وبرتر جانیے: جب بندہ اپنے آپ کو کسی سے اعلیٰ وبرتر جانتا ہے تو تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے، عاجزی اختیار نہیں کرسکتا، لہٰذا ہرمسلمان کو اپنے سے اعلیٰ وبرتر جانیے کہ اس طرح دل میں عاجزی وانکساری پید ا ہوگی۔حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو عاجزی کیا ہے؟ عاجزی یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے نکلو تو جس مسلمان کو دیکھو اسے اپنے سے اَفضل گمان کرو۔‘‘[9]
(9)زبان کا قفل مدینہ لگائیے:دِل کے جذبات کا اظہار زبان سے ہوتا ہے اسی لیے زبان کو دل کا ترجمان کہتے ہیں، یہیوجہ ہے کہ جن اَفراد کے دل عاجزی سے بھرپور ہوتے ہیں وہ زبان کا قفل مدینہ لگاتے ہیں یعنی فضول گفتگو سے بچتے ہوئے فقط کام کی گفتگو ہی کرتے ہیں، جبکہ عاجزی سے خالی دل رکھنے والا شخص سننے سے زیادہ دوسروں کو سنانے کی کوشش کرتا ہے دراصل یہ رویہ اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے لہٰذا اگر آپ اپنے اندر عاجزی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو زبان کا قفل مدینہ لگائیے۔
(10)شکریہ کے ساتھ غلطی قبول کیجیے:عاجزی وانکساری پیدا کرنے میں یہ بات نہایت ہی مددگار ہے، بندہ جب اپنی غلطی کو شکریہ کے ساتھ تسلیم کرتا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اُس کا نفس خود بخود عاجزی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے کبھی بھی اپنی خامیوں کا دفاع نہیں کرتے بلکہ اپنی غلطی کو قبول کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، شیخ طریقت اَمیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ عاجزی وانکساری کے پیکر ہیں، ہرمدنی مذاکرہ کے شروع میں خود اعلان فرماتے ہیں کہ ’’اگر بھول کرتا پائیں تو میری اِصلاح فرمائیں، مجھے آئیں بائیں شائیں کرتا، اپنے مَوقف پر بلا وجہ اَڑتانہیں بلکہ شکریہ کے ساتھ اپنی غلطی کو قبول کرتا پائیں گے۔‘‘ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غلطی قبول کرنے کی عادت بنائیں اِس کی برکت سے ہمارے لیے عاجزی کرنا آسان ہوجائے گا ۔
(11)دوسروں میں اچھائیاں ڈھونڈکر عاجزی کیجئے:تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کی ذات میں اچھائیاں ڈھونڈکر دل میں عاجزی پیدا کیجئے، مثلاً: کسی جاہل کو دیکھے تو دل میں کہے: اس نے جہالت کی وجہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے اور میں نے علم ہونے کے باوجود اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے لہٰذا میرے مقابلے میں اس کا عذر زیادہ قابل قبول ہے۔ جب کسی عالم کو دیکھے تو یوں کہے: ’’یہ اُن باتوں کا علم رکھتا ہے جن کا مجھے علم نہیں لہٰذا میں کس طرح اِس کی برابر ی کرسکتا ہوں۔‘‘جب آدمی اپنے خاتمے کو پیش نظر رکھے گا تو اپنے آپ سے تکبر دُور کرنے اور عاجزی پیدا کرنے پر قادر ہوسکے گا۔[10] (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۴تا۸۹)
[1] ۔۔۔۔فیض القدیر، حرف الھمزۃ، ۱ / ۵۹۹، تحت الحدیث: ۹۲۵ماخوذا ۔
[2] ۔۔۔۔مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔الخ ، باب استحباب العفووالتواضع ، ص۱۳۹۷، حدیث: ۲۵۸۸۔
[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۸۹ماخوذا ۔
[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۳، ص۱۰۰۱ ماخوذا۔
[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۲ملتقطاً۔
[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۴تا ۱۰۰۸ملتقطا۔
[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۴۶، ۱۰۴۷ملتقطا۔
[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۷۔
[9] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۵۔
[10] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۷۶۔