سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کراچی کا رہائشی ہوں اور میڈیسن کمپنی میں کام کرتا ہوں۔میرا کمپنی کی طرف سے حیدر آباد کا ٹور ہوتا ہے، جو 15 دن سے زائد ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ میرا قیام حیدر آباد کے ہوٹل میں ہوتا ہے اور دن میں حیدر آباد کے قریبی شہروں مثلاً: کوٹری، جام شورو، ٹنڈو آدم ،میر پور خاص اور ٹنڈو اللہ یار وغیرہ کا وزٹ کرتا ہوں ۔ان میں کوئی بھی شہر حیدر آباد سے 70 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں ہے۔رات واپسی آکر حیدر آباد میں گزارتا ہوں اور صبح پھر دوسرے شہر نکل جاتا ہوں۔میری پندرہ سے زائد راتیں حیدر آباد میں گزرتی ہیں اور یہیں پر گزارنے کی نیت ہوتی ہے، جبکہ دن دوسرے شہر میں ۔ اس صورت میں مجھے قصر نماز پڑھنی ہو گی یا پوری؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں جب آپ کی نیت پندرہ( 15 )راتیں مسلسل حیدر آباد میں قیام کی ہے ،تو حیدر آباد پہنچنے پر آپ مقیم ہوجائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے، اگرچہ دن میں آپ قریب کے شہر جو 92 کلو میٹر سے کم فاصلے پر ہوں ، جانے کا ارادہ ہو اور حیدر آباد کےساتھ ساتھ ان قریبی شہروں میں بھی پوری نماز ہی پڑھیں گے۔یہ یاد رہے کہ جب آپ حیدرآباد پہنچیں گے ، تب مقیم ہو ں گےکہ راتیں بسر کرنے کی نیت حیدر آباد کی ہے ،اگر آپ حیدر آباد پہنچنے سے پہلے اس شہر چلے گئے ،جہاں آپ کی دن گزارنے کی نیت تھی، مثلاً :کوٹری ، جامشورو وغیرہ تو مقیم نہیں ہوں گے اور قصر نماز پڑھیں گے ، ہاں وہاں سے فارغ ہو کر حیدر آباد آ گئے، تو اب مقیم ہو جائیں گے ،جبکہ قیام کی راتیں مسلسل پندرہ راتوں سے کم نہ بنتی ہوں۔
اس کی تفصیل یہ ہے : مسافر کسی بھی شہر یعنی مستقل بستی میں مسلسل پندرہ دن قیام کی نیت کرتا ہے، تو وہ وہاں پر پہنچ کر مقیم ہو جائے گا۔ یہاں پر پندرہ دن کی نیت سے مراد پندرہ راتیں بسر کرنے کی نیت ہے کہ اقامت میں معتبر رات بسر کرنا ہے، دن چاہے کہیں بھی گزارے ،جبکہ رات بسر کرنے کی جگہ اور دن گزارنے کی جگہ کی درمیان مدتِ سفر سے کم فاصلہ ہو۔اگرچہ یہ نیت ابتداءِ اقامت بلکہ ابتداءِ سفر سے ہی ہو کہ کسی اور شہر میں دن گزارنے کی نیت تسلسل سے مانع نہیں، ہاں اگر یہ نیت کہ پندرہ میں سے چودہ راتیں ایک شہر میں گزارے گا اور ایک رات دوسرے شہر میں تو اس سے پندرہ یوم کا تسلسل منقطع ہو جائے گا اور وہ مقیم نہیں ہو گا۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ و لو نوی الاقامۃ خمسۃ عشر یوماً بقریتین ، النھار فی احداھما و اللیل فی الاخری یصیر مقیماً اذا خل التی نوی البیتوتۃ فیھا ھکذا فی محیط السرخسی‘‘ ترجمہ:اگر دو بستیوں میں پندرہ دن اقامت کی نیت کی، ان دونوں میں سے ایک میں دن گزارنے اور دوسری میں رات بسر کرنے کی نیت تھی ،تو اس بستی میں داخل ہونے سے مقیم ہو جائے گا، جس میں رات گزارنے کی نیت کی تھی۔ ایسا ہی محیط سرخسی میں ہے۔ (ھندیہ،ج1،ص140،مطبوعہ کوئٹہ)
یونہی ردالمحتار میں ہے:’’ فان دخل اولاً الموضع الذی المقام فیہ نھاراً لا یصیر مقیماً ، و ان دخل اولاً ما نوی المبیت فیہ یصیر مقیماً ، ثم بالخروج الی الموضع الآخر لا یصیر مسافراً ؛ لان موضع اقامۃ الرجل حیث یبیت بہ، حلیۃ ‘‘ ترجمہ :اگر پہلے اس جگہ داخل ہوا جس جگہ میں دن گزارنا تھا، تو مقیم نہیں ہو گا اور اگر پہلے اس جگہ داخل ہوا جس میں رات بسر کرنے کی نیت تھی، تو مقیم ہو جائے گا۔ پھر دوسری جگہ کی طرف نکلنے سے مسافر نہیں ہو گا، اس لیے کہ آدمی کی اقامت کی جگہ وہ ہے، جہاں وہ رات گزارے،حلیہ۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،ج2،ص730،مطبوعہ کوئٹہ)
بحرالرائق میں ہے:’’ لو نوی الاقامۃ بمکۃ خمسۃ عشر یوماً فانہ لا یتم الصلاۃ لان الاقامۃ لا تکون فی مکانین اذ لو جازت فی مکانین لجازت فی اماکن فیؤدی الی ان السفر لا یتحقق لان الاقامۃ المسافر فی المراحل لو جمعت کانت خمسۃ عشر یوماً او اکثر الا اذا نوی ان یقیم بالیل فی احدھما فیصیر مقیماً بدخولہ فیہ لان اقامۃ المرء تضاف الی مبیتہ یقال فلان یسکن فی حارۃ کذا و ان کان بالنھار فی الاسواق ثم خروج الی الموضع الآخر لا یصیر مسافراً ‘‘ترجمہ: اگسسسر مکہ میں پندرہ روز اقامت کی نیت کی ، تو وہ پوری نماز نہیں پڑھے، گا اس لیے کہ اقامت دو جگہوں میں نہیں ہوتی، کیونکہ اگر اقامت دو جگہوں پر جائز ہو گی، تو متعدد جگہوں پر بھی جائز ہو جائے گی، پھر یہ بات اس طرف لے جائے گی کہ سفر ہی متحقق نہ ہو ، اس لیے کہ سفر کے مراحل میں مسافر کی اقامت ہوتی ہے ،اگر ان کو جمع کر لیا جائے، تو یہ پندرہ یا اس سے زیادہ دن بن جاتے ہیں۔ ہاں جب وہ دونوں جگہوں میں سے ایک میں رات میں قیام کی نیت کرے ،تو وہ اس جگہ میں داخل ہونے سے مقیم ہو جائے گا، اس لیے کہ آدمی کی اقامت کی نسبت اس کے رات بسر کرنے کی جگہ کی طرف ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں اس محلے میں رہتا ہے، اگرچہ وہ دن میں بازاروں میں ہوتا ہے، پھر دوسری جگہ کی طرف نکلنے سے وہ مسافر نہیں ہو گا۔ (بحرالرائق،ج2،ص232،مطبوعہ کوئٹہ)
مقیم ہونے کے لیے پندرہ راتیں مسلسل ایک جگہ پر گزارنے کی نیت ضروری ہے ،اگرچہ دن کسی دوسری جگہ پر گزارے۔ اس کے بارے میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جدالممتار میں فرماتے ہیں:’’ اقول: الحق ان التوالی شرط فانہ لو نوی ان یقیم ھاھنا اسبوعاً فی اول کل شھر لا یکون مقیماً ھاھنا ابداً و الخروج قسمان: احدھما: الخروج نھاراً او لیلاً الی موضع آخر مع المبیت ھاھنا، فھذا لا یقطع التوالی؛ لان مقامک ھو مبیتک ، الا تری ! انک تسال التاجر عن مقامہ فیقول فی المحل الفلانی مع کونہ کل یوم نھاراً بالسوق۔ و الآخر : الخروج الی موضع آخر للمبیت فیہ و لو لیلۃ، فھذا الذی یقطع التوالی و ھو الموجود فی منی‘‘ترجمہ: میں کہتا ہوں: حق یہ ہے کہ تسلسل شرط ہے۔ اگر نیت کرے کہ ہر مہینے کی ابتدا میں ایک ہفتہ یہاں مقیم رہے گا۔ وہ کبھی بھی یہاں مقیم نہیں ہو گا۔ خروج(نکلنے) کی دو قسمیں ہیں۔ دونوں میں پہلی قسم : دن یا رات میں دوسری جگہ کی طرف اس نیت کے ساتھ نکلنا کہ رات یہاں گزارے گا تو یہ تسلسل کو منقطع نہیں کرے گا،اس لیے تیری اقامت کی جگہ وہ ہے، جو تیرے رات گزارنے کی جگہ ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ جب تو تاجر سے اس کی قیام گاہ کے بارے میں پوچھے، تو وہ کہے گا فلاں محلہ ساتھ اس کے کہ وہ ہر روز دن میں بازار میں ہوتا ہے۔
دوسری قسم: دوسری جگہ کی طرف نکلنا اس میں رات گزارنے کے لیے، اگرچہ ایک ہی رات ہو۔ یہ ’’منیٰ‘‘ میں موجود ہے۔(یعنی ذی الحجہ میں حاجی نے مکہ میں اقامت کی نیت کی، تو اس کی نیت اقامت معتبر نہیں کہ اس نے پندرہ دن مکمل ہونے سے پہلے منیٰ میں رات گزارنے کے لیے نکلنا ہے۔)(جدالممتار،ج3،ص566، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں:’’ جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت الہ آباد میں کر لی ہے، تو اب الہ آباد وطنِ اقامت ہو گیا۔ نماز پوری پڑھی جائے گی، جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ، اگرچہ ہر ہفتہ پر بلکہ ہر روز الہ آباد سے کہیں تھوڑی تھوڑی دور یعنی دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ،ورنہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہو گی، مثلاً: الہ آباد میں پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہو گا ،تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا ،اگرچہ دوسری جگہ الہ آباد کے ضلع میں، بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگرچہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا، تو اقامت صحیح ہو گئی نماز پوری پڑھی جائے گی، جبکہ وہ دوسری جگہ الہ آباد سے چھتیس کوس یعنی ستاون اٹھاون میل کے فاصلے پر نہ ہو ،غرض قیام کی نیت کرتے وقت ان خیالوں کا اعتبار ہے، بعد کو جو پیش آئے اس کا لحاظ نہیں، مثلاً: پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرا لیا اور اس کے بعد اتفاقاً چند راتوں کے لیے اور جگہ جانا ہوا ،جو الہ آباد سے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں، اگرچہ دس بیس بلکہ چھپن میل تک ہو تو سفر نہ ہو گا، اس مقامِ دیگر میں بھی نماز پوری پڑھنی ہو گی اور الہ آباد میں بھی ان سب صورتوں کو خوب غور سے سمجھ لو۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج8،ص251، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم