سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف پانچ تولہ سونا ہو، جو اس نے بیچنے کی نیت سے خریدا ہو،لیکن اس سونے کے علاوہ اموالِ زکوۃ میں سے کوئی مال نہ ہو، تو کیا اس پر زکوۃ لازم ہوگی جبکہ اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت سے بہت زیادہ ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں جبکہ ملکیت میں صرف پانچ تولہ سونا ہے اور اس کےعلاوہ اموالِ زکوۃ(مثلاً،چاندی، کرنسی نوٹ، پرائز بانڈ ، مالِ تجارت، کسی کو دیا ہوا قرض )میں سے کوئی مالِ زکوۃ نہیں ، تو صرف پانچ تولہ سونے پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی اگرچہ خاص تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہو اور اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی سے زائد ہو۔
زکوۃ لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خود سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہےجبکہ پوچھی گئی صورت میں سونا نصاب سے کم ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جب اموالِ زکوۃ نصاب سے کم ہوں تو ان کو ملانے کی صورت بنتی ہے لیکن یہاں ایسا ہے ہی نہیں کہ اموال زکوۃ میں سے صرف ایک ہی مال ہے اور وہ بھی نصاب سے کم ۔تیسری چیز یہ بھی سامنے رہنی چاہیے کہ سونےپر زکوۃ لازم ہونے کے لئےالگ سےنیتِ تجارت کی حاجت نہیں کہ یہ ثمنِ خلقی ہے لہٰذا اس میں نیتِ تجارت ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں۔
سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہے۔اس کے متعلق سنن ابی داؤد میں حضرت مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فإذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم وليس عليك شىء يعني في الذهب حتى يكون لك عشرون دينارا فإذا كان لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار “یعنی پس جب تیرے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر سال گزر جائے ، تو ان میں پانچ درہم (بطورِ زکوۃ ادا کرنالازم)ہیں اور سونے میں تجھ پر کوئی چیز لازم نہیں یہاں تک کہ تیرے پاس بیس دینار ہوجائیں، پس جب تیرے پاس بیس دینار ہوجائیں اور ان پر سال گزر جائے ، تو ان میں نصف دینار(بطورِ زکوۃ ادا کرنا لازم)ہے۔(سنن ابی داؤد، حدیث 1573،صفحہ 204،مطبوعہ:ریاض)
علامہ عبداللہ بن محمد الشہیر بیوسف آفندی زادہ رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی1167ھ)نجاح القاری میں فرماتے ہیں: ”اما الذھب ففی عشرین مثقالا من ربع العشر لحدیث ابی داؤد باسناد صحیح او حسن عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم :ولیس فی اقل من عشرین دینارا شیئ وفی عشرین نصف دینار“یعنی بہر حال سونا،تو بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ سونے) میں دسویں کا چوتھائی حصہ ہے ابو داؤد کی اس حدیث کی وجہ سے جو بسندِ صحیح یا حسن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:اور بیس دینار سے کم میں کوئی چیز لازم نہیں اور بیس دینار میں نصف دینار لازم ہے۔ (نجاح القاری ، جلد9،صفحہ 210،مطبوعہ:بیروت)
صرف سونا ہو،تو زکوۃ لازم ہونے لئے اس کا ساڑھے سات تولہ ہونا ضروری ہے،اس سے کم ہو، تو زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”إذا کان لہ ذھب مفرد فلا شیء فیہ حتی یبلغ عشرین مثقالا فإذا بلغ عشرین مثقالا ففیہ نصف مثقال“یعنی اگر کسی کے پاس تنہا سونا ہو، تو اس پر کچھ لازم نہیں یہاں تک کہ سونا بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ ) ہوجائے ، پس جب یہ بیس مثقال ہوجائے ،تو اس میں نصف مثقال زکوۃ واجب ہے۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 410،مطبوعہ:بیروت)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:”اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکوۃ فیہ“یعنی صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تب اس میں زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔(تحفۃ الفقھاء، جلد1، صفحہ266 ،مطبوعہ: بیروت)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اما نصاب الذھب فعشرون مثقالاولا زکوۃفیما دونھا“یعنی بہر حال سونے کا نصاب ، تو وہ بیس مثقال ہے اور اس سے کم میں کوئی زکوۃ نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد4،صفحہ 252، مطبوعہ: کوئٹہ)
سونا و چاندی ثمنِ خلقی ہیں جو تجارت کے لئے موضوع ہیں ،لہٰذا ان میں نیتِ تجارت کی حاجت نہیں۔اس کے متعلق تبیین الحقائق میں ہے:”انھما خلقا اثمانا للتجارۃ فلا یحتاج فیھما الی نیۃ التجارۃ ولا تبطل الثمنیۃ بالاستعمال“یعنی سونا و چاندی تجارت میں ثمن بنانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، پس اس میں نیتِ تجارت کی حاجت نہیں اور نہ ہی( کسی دوسرے کام میں) استعمال کے سبب ان کی ثمنیت باطل ہوگی۔(تبیین الحقائق، جلد 1،صفحہ 277، مطبوعہ:ملتان)
رد المحتار میں ہے:”عین النقدین لا یحتاج الی نیۃ التجارۃکما فی الشمنی وغیرہ“یعنی عینِ نقدین (سونا و چاندی پر زکوۃ لازم ہونے کے لئے)نیتِ تجارت کی حاجت نہیں جیسا کہ شمنی وغیرہ میں ہے۔ (ردالمحتار، جلد3، صفحہ 274،مطبوعہ:کوئٹہ)
صرف سونا یا صرف چاندی ہو، تو اس صورت میں وجوبِ زکوۃ کے لئے وزن کا اعتبار ہوگا، قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہو، اگرچہ اس کی مالیت چاندی کے نصاب سے زائد ہو، تو بھی اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”اجمعوا علی انہ لا تعتبر القیمۃ فی الذھب والفضۃ عند الانفراد فی حق تکمیل النصاب “یعنی فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ سونا اور چاندی جب تنہا تنہا ہوں ، تو تکمیلِ نصاب کے حق میں قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 413،مطبوعہ:بیروت)
درمختار میں ہے:”والمعتبر وزنھما اداء ووجوبا لا قیمتھما“یعنی ادا و جوب کے اعتبار سے سونے اور چاندی کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا ان کی قیمت معتبر نہ ہوگی۔
علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”وجوبا“ کے تحت فرماتے ہیں:”ای من حیث الوجوب یعنی یعتبر فی الوجوب ان یبلغ وزنھما نصابا ،نھر، حتی لو کان لہ ابریق ذھب او فضۃ وزنہ عشرۃ مثاقیل او مائۃ درھم وقیمتہ لصیاغتہ عشرون او مائتان لم یجب فیہ شیئ اجماعا“یعنی وجوباً سے مراد من حیث الوجوب ہے اور مطلب یہ ہے کہ زکوۃ واجب ہونے کے معاملہ میں اس بات کا اعتبار ہے کہ ان دونوں کا وزن نصاب کو پہنچ جائے ۔نہر۔ یہاں تک کہ اگرکسی کے پاس سونے یا چاندی کی کیتلی ہو جس کا وزن دس مثقال یا سو درہم ہو اور اس کی بناوٹ کی وجہ سے اس کی قیمت بیس مثقال یا دو سو درہم ہو، تو بالاجماع اس میں کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔(ردالمحتار، جلد 3،صفحہ 270، مطبوعہ:کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”سونے کی نصاب بیس مثقال ہے یعنی ساڑھے سات تولے ۔۔۔۔سونے چاندی کی زکوۃ میں وزن کا اعتبار ہے ، قیمت کا لحاظ نہیں ، مثلاً:ساڑھے سات تولے سونے یا کم کا زیور بنا ہو کہ اس کی کاریگری کی وجہ سے دو سو درم سے زائد قیمت ہوجائے یا سونا گراں ہوکہ ساڑھے سات تولے سے کم قیمت دو سو درم سے بڑھ جائے ،جیسے آج کل کہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت چاندی کی کئی نصابیں ہوں گی ، غرض یہ کہ وزن میں بقدرِ نصاب نہ ہو،تو زکوۃ واجب نہیں قیمت جو کچھ بھی ہو“(بہارِ شریعت، جلد 1،حصہ 5،صفحہ 902، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم