افضلیت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) حسب نسب ،خلافت اور ولایت کس اعتبار سے ہے ؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

(1) جمعۃ المبارک کے خطبے میں یہ کلمات سننے کو ملتے ہیں : ’’افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق امیر المؤمنین سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘اس پر کسی نے سوال کیا ہے کہ کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ افضلیت سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین کریمین پر بھی حاصل ہے اور یہ فضیلت حسب نسب کے اعتبار سے ہے یا خلافت کے اعتبار سے ہے ؟

(2)کیا بعض صحابہ کرام کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حسب نسب ، خلافت یا ولایت وغیرہ کسی حوالے سے افضل ہیں ؟

 

جواب:  (1)انبیاء و مرسلین کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہستی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت ، فضیلتِ مطلقہ ہے  اور اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سے جو قرب و وجاہت ، عزت و کرامت ، علوِ شان و رفعتِ مکان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے ، کسی اور کو حاصل نہیں ، حسب نسب یا خلافت کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ہے ، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین کریمین پر بھی حاصل ہے ، البتہ بعض جزوی فضیلتیں دیگر ہستیوں کو حاصل ہیں ،جیسے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین ہونے کا شرف یقینا والدین کریمین رضی اللہ عنہما ہی کو حاصل ہے۔ اسی طرح دیگر کئی جزوی فضیلتیں ایسی ہیں ، جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں ، لیکن دیگر اصحاب کو حاصل ہیں اور اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلتِ مطلقہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

   امام ابو احمد ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 365 ھ ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں : ’’ قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أبو بكر وعمر خير الأولين وخير الآخرين وخير أهل السماوات وخير أهل الأرضين إلا النبيين والمرسلين ‘‘ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پہلے والوں اور بعد والوں ، زمین والوں اور آسمان والوں میں سے انبیاء و مرسلین کے علاوہ باقی تمام سے بہترین ہیں ۔(الکامل فی ضعفاء الرجال ، جلد2،صفحہ443،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   افضلیت سے مراد کیا ہے ؟ اس سے متعلق علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ هما أعلى المؤمنين صفة وأعظمهم بعد الأنبياء قدرا ‘‘ ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما مومنین میں سے سب سے زیادہ صفت کے اعتبار سے اعلیٰ ہیں اور (بارگاہ الٰہی میں)انبیاء کے بعد مومنین میں سے سب سے بڑی قدر و منزلت والے ہیں ۔(التیسیر شرح جامع الصغیر ، جلد 2 ، صفحہ 172 ، مطبوعہ بیروت )

   شرح مواقف میں ہے : ’’و مرجعھا ای مرجع الافضلیۃ التی نحن بصددھا الی کثرۃ الثواب و الکرامۃ عند اللہ ‘‘ ترجمہ : جس افضلیت سے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں  ، اس کا مرجع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثواب کی کثرت اور عزت و کرامت ( ان حضرات کی ) ہے ۔( شرح المواقف ، المرصد الرابع ، المقصد الخامس ، الافضل بعد الرسول ، جلد 3 ، صفحہ 638 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   نسب کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ، جیسا کہ شرح عقائد کی شرح نبراس میں ہے : ’’ ذکر المحققون ان فضیلۃ المبحوث عنھا فی الکلام ھی کثرۃ الثواب ای عظم الجزاء علی اعمال الخیر لاشرف النسب  ‘‘ ترجمہ : محققین نے ذکر کیا ہے کہ جس فضیلت سے متعلق ہم بات کر رہے ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ ثواب کا زیادہ ہونا اور اعمالِ صالحہ پر جزاء کا عظیم ہونا ، نہ کہ نسب کے اعتبار سے شرف حاصل ہونا۔( النبراس ، افضل البشر بعد الانبیاء الخ ، صفحہ 299 ، مطبوعہ ملتان )

   نوٹ : علماء کے کلام میں افضلیت کی شرح میں جو کثرتِ ثواب کہا گیا ہے ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’وہ کثرتِ ثواب سے زیادتِ قرب مراد لیتے ہیں ، کہ بنی نوع انسان میں قرب بذریعۂ اعمال حاصل ہوتا ہے ، اسی طرح کثرتِ نفع فی الاسلام قوت کیفیتِ ایمانیہ کا اثر و ثمرہ اور یہی کیفیت وجہِ تفاضلِ انبیاء و ملائکہ ہے ۔ ‘‘( حاشیہ مطلع القمرین ( جدید تخریج شدہ ) ، صفحہ 124 ، مطبوعہ بھارِ شریعت ، لاھور )

   افضلیت کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ’’ سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام کے بعد جو قرب و وجاہت و عزت و کرامت و علوِ شان و رفعتِ مکان و غزارتِ (وفور و کثرت)فخر و جلالتِ قدر بارگاہِ حق تبارک و تعالیٰ میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حاصل ، ان کا غیر اگرچہ کسی درجۂ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو یا آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہرگز اس تک نہیں پہنچ سکتا ، مگر شیخین کو امورِ مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذ باللہ فضل و کمالِ ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے اور تفضیلیہ دربارہ جناب مولیٰ اس کا عکس مانتے ہیں ۔یہ ہی تحریر مادۂ نزاع ، بحمد اللہ اس نہجِ قویم و اسلوبِ حکیم کے ساتھ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ شک مشکک و وہمِ واہم کو اصلاً محلِ طمع نہیں ۔‘‘( مطلع القمرین ( جدید تخریج شدہ ) ، صفحہ 114 ، مطبوعہ مکتبہ بھارِ شریعت ، لاھور )

   امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نسب کی بناء پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص سے متعلق سوال ہوا ، تو جواباً آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ’’اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء کا اعظم و اعلیٰ ہے ،تو حق تھا ، مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولیٰ علی سے افضل کہا ، یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے ، اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے، ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل۔ اگرجزئیت موجبِ افضلیت مرتبہ عند اﷲ ہو ، تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اﷲ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولیٰ علی سے افضل واعلیٰ ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون ۔‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 29 ، صفحہ 274 تا 276 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   (2)انبیاء و مرسلین کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے اور اس عقیدے پر بہت ساری احادیثِ نبویہ ، آثارِ صحابہ اور بزرگانِ دین کے اقوال موجود ہیں ، کسی بھی صحابی کا اس کے خلاف عقیدہ نہیں تھا ، بلکہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ہی سزا کی روایت منقول ہے اور یہی مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت حسب نسب  یا خلافت  کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ مطلقہ ہے، یعنی بغیر کسی خاص وصف کا لحاظ کیے یوں ہے کہ قربِ الٰہی  و کثرتِ ثواب میں آپ بقیہ سب سے فائق ہیں ، جیسا کہ پہلے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ رآني النبي (صلى اللہ عليه وسلم) وأنا أمشي أمام أبي بكر الصديق فقال يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر ‘‘ ترجمہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا : اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے تھے ، جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے ۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو ۔( تاریخ دمشق لابن عساکر ، جلد 30 ، صفحہ 209 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 509 ھ ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں  کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا : ’’ أتاني جبريل قلت يا جبريل من يهاجر معي قال أبو بكر وهو يلي أمر أمتك من بعدك وهو أفضل أمتك ‘‘ ترجمہ : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے ، تو میں نے کہا : اے جبریل ! میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، جو آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد آپ کی امت کے والی ہوں گے اور آپ کی امت میں سے سب سے افضل ہیں ۔( الفردوس بماثور الخطاب ، جلد 1 ، صفحہ 404 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں:” کنانقول ورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعدنبیھاصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابوبکروعمروعثمان ویسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلاینکرہ“ترجمہ:ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہاکرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعداس امت میں حضرت ابوبکر ، پھرحضرت عمر ، پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اورآپ انکار نہ فرماتے۔(المعجم الکبیر، جلد12،صفحہ285،مکتبۃ العلوم و الحکم ، الموصل )

   حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمدبن حنفیہ تابعی ہیں ، آپ فرماتے ہیں : ’’ قلت لابی ای الناس خیربعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال ابوبکر قلت ثم من ؟ قال عمر“ترجمہ:میں نے اپنے والدحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعدتمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟توحضرت علی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔میں نے کہاپھرکون افضل ہیں؟ توآپ نے جواب دیاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں۔(صحیح البخاری،باب فضل ابی بکر،جلد1، صفحہ518، مطبوعہ کراچی)

   امام اعظم امام ابو حنیفہ ( تابعی ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعدتمام لوگوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، پھرعمربن خطاب ، پھرعثمان بن عفان ، پھرعلی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں۔( فقہ اکبر مع شرح،صفحہ61،مطبوعہ کراچی)

   حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ تابعی ہیں ، آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت علی افضل ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہم ) ؟ تو یہ سنتے ہی آپ کا جسم لرز اٹھا اور آپ کے ہاتھ سے عصا گِر گیا اور فرمایا : ’’ ما كنت أظن أن أبقى إلى زمان يعدل بهما ‘‘ ترجمہ : مجھے گمان نہ تھا کہ میں ایسے زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ حضرت ابوبکر و عمر کے برابر کسی دوسرے کو ٹھہرائیں گے ۔( تاریخ الخلفاء ، الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق ، صفحہ 31 ، مطبوعہ عرب شریف )

   صحابہ و تابعین کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا ، جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 923 ھ ) فرماتے ہیں:” الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک “ ترجمہ:انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعدابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پراتفاق کیا۔امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پرصحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا۔(ارشادالساری ،باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،جلد8،صفحہ147،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 676 ھ ) فرماتے ہیں:’’ وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر ‘‘ ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔( تھذیب الاسماء و اللغات ، جلد 1 ، صفحہ 15، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتري ‘‘ ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا ۔( تاریخ دمشق لابن عساکر ، جلد 30 ، صفحہ 383 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   یہ افضلیت خلافت کے اعتبار سے ہے یا ولایت کے اعتبار سے ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’سلسلہ تفضیل عقیدہ اہلسنت میں یوں منتظم ہوا کہ افضل العٰلمین و اکرم المخلوقین محمد رسول رب العٰلمین ہیں ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ، پھر انبیاء سابقین ، پھر ملائکہ مقربین ، پھر شیخین ، پھر ختنین ، پھر بقیہ صحابہ کرام صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور پُر ظاہر کہ سلسلہ واحدہ میں مافیہ التفاضل یعنی وہ امر جس میں کمی بیشی کے اعتبار سے سلسلہ مرتب ہوا ، ایک ہی ہوگا ۔۔۔۔پس بالضرورۃ وہ امر یہاں بھی ایک ہی ہوگا اور جس بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام انبیاء اور انبیاء کو تمام ملائکہ اور ملائکہ مقربین کو شیخین پر زیادتی مانی گئی ہے ، بعینہ اسی امر میں شیخین کو جنابِ عثمان و حضرت مرتضوی پر پیشی ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین ۔ اب ہم پوچھتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور انبیاء سے افضل کہا جاتا ہے ، تو آیا اس کے سوا کچھ اور معنیٰ و مفہوم ہوتے ہیں کہ حضور کا رتبۂ عالی اور قرب و وجاہت و عزت و کرامت ان سے زیادہ ، اسی طرح جب انبیاء کو ملائکہ اور ملائکہ کو صحابہ سے افضل کہتے ہیں ،  اس معنیٰ کا غیر ذہن میں نہیں آتا ، تو شیخین کو جو مولیٰ علی سے افضل کہا ، وہاں بھی قطعاً یہی معنیٰ لیے جائیں گے ، ورنہ سلسلہ بکھر جائے گا اور ترتیب غلط ہوجائے گی اور جو یہاں زیادتِ اجر وغیرہا معانی مخترع مراد لیتے ہو ، تو بحکمِ مقدمۂ مذکورہ اوپر بھی یہی لینا پڑے گا ، حالانکہ فرشتے بایں معنیٰ اہل ثواب نہیں ، نہ بعض ملائکہ مقربین مثل حملۂ عرشِ عظیم میں باعتبار نفع فی الاسلام کلام جاری ہو اور خلافت تو خلفاء اربعہ سے اوپر کسی میں نہیں ، پھر یہ معانی تراشیدہ کیوں کر درست ہوسکتے ہیں ؟ لطف یہ ہے کہ جیسے اوپر کی ترتیبوں میں تفضیل بمعنیٰ علوِ شان و رفعتِ مکان لیتے آئے ، یوں جب نیچے آکر مولیٰ علی کو بقیہ صحابہ سے افضل کہتے ہیں ، وہاں بھی اسی معنیٰ پر ایمان لاتے ہیں ، بیچ میں شیخین کی نوبت آتی ہے ، تو اگلا پچھلا یاد نہیں رہتا ، نئے نئے معنیٰ گڑھے جاتے ہیں اور اس معنیٰ کے رد پر بڑے بڑے اہتمام ہوتے ہیں ۔ اب بھی دعویٰ انصاف باقی ہے ۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ملخصاً ۔‘‘(مطلع القمرین ( جدید تخریج شدہ ) ، صفحہ 123 تا 124 ،  مکتبہ بھارِ شریعت ، لاھور )

   اس مسئلے پر یہ چند دلائل ذکر کیے گئے ہیں ، مزید تفصیل کے لیے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کا رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین کا مطالعہ فرمائیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے