سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ زیدصاحب نصاب ہے اوراس کی زکوۃ کا سال یکم رجب سے شروع ہوتا ہے اور اس کے پاس 10 لاکھ روپے ہیں۔ شوال میں زید 12 لاکھ کے ادھار پر گاڑی خرید لیتا ہے یعنی جتنی اس کے پاس رقم ہے، اس سے زیادہ اس پر قرض آجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا زید کا پہلے سے جو زکوۃ کا سال چل رہا ہے، وہ جاری رہے گا یا وہ اس قرض کی وجہ سے ختم ہوگیا؟اور اب زید پر زکوۃ کب فرض ہوگی؟
جواب: صورتِ مسئولہ کے مطابق ماہ شوال میں اگرچہ زید پر اس کے پاس موجود رقم سے زیادہ قرض آگیا، لیکن اس قرض کی وجہ سے ا س کی زکوٰۃ کا سال جو رجب سے شروع ہے وہ ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ ابھی بھی جاری ہے۔ لہذا یکم رجب والے دن زید اپنا حساب کرے گا ۔
اگر یکم رجب کو زید کا سارا قرض ختم ہو چکا،یا قرض اتنا کم رہ گیا کہ اسے مائنس کرنے کے بعد زید کے پاس نصاب کے برابر یا زیادہ رقم بچتی ہے، تو پھر زید پر لازم ہوگا کہ یکم رجب کو جتنی بھی رقم قرض کے بعد بچتی ہے،اس پر زکوۃ ادا کرے اور اس کی زکوۃ کا سال بدستور یکم رجب سے یکم رجب تک چلتا رہے گا ۔اوراگر یکم رجب والے دن بھی زید پر قرض زیادہ ہوا اور اس کے پاس رقم کم ہوئی یا قرض نکالنے کے بعد رقم نصاب سے کم رہی، تو پھر زید پر زکوۃ فرض نہیں ہوگی اور اب زید کے سال کا حکم بھی ختم ہو جائے گا۔ اب جب دوبارہ زید صاحب نصاب بنے گا تب سے نیا سال شروع ہوگا۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ درمیان سال دَین(قرض) لاحق ہو جائے اور وہ دَین کل مال سے زیادہ ہو ،تو اب سال کا حکم ختم ہوتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے ائمہ کے مابین اختلاف ہے ۔
امام زفراور امام محمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں:’’ اس طرح کے دَین سے زکوۃ کے سال کا حکم ختم ہو جاتا ۔ جبکہ دوسری طرف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس طرح کے دَین(قرض) سے زکوۃ کا سال منقطع نہیں ہوتا کیونکہ اتنا قرض لازم آنا ایسے ہی ہے کہ جیسے مال ، نصاب سے کم ہوگیا اور دوران سال مال، نصاب سے کم ہو جائے تو اس سے سال منقطع نہیں ہوتا ،بلکہ جاری رہتا ہے اور سال کے آخر پر اگر نصاب پورا ہو جائے، تو زکوۃ کی ادائیگی فرض ہو جاتی ہے۔ لہذا یہی حکم اس قرض والی صورت میں بھی ہوگا کہ سال جاری رہے گا اور اگر سال کے آخر میں قرض منہا کرنے کے بعد نصاب مکمل ہوا ،تو زکوۃ فرض ہو جائے گی۔ یہ جو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا موقف ہے ، یہی امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا بھی قول ہے۔ اور فقہائےکرام نے اسی مؤقف کوترجیح دی ہے۔
مبسوط سرخسی میں ہے: ” فإن لحقه دين في خلال الحول قال أبو يوسف رحمه اللہ تعالى : لا ينقطع به الحول حتى إذا سقط قبل تمام الحول تلزمه الزكاة إذا تم الحول، وقال زفر رحمه اللہ تعالى : ينقطع الحول بلحوق الدين، وهذا لأن الدين يعدم صفة الغنى في المالك فيكون نظير نقصان النصاب، وعند زفر رحمه اللہ تعالى بنقصان النصاب في خلال الحول ينقطع الحول، وعندنا لا ينقطع على ما تبين فهذا مثله“ترجمہ: اگر سال کے دوران اس پر قرض آگیا تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے سال منقطع نہیں ہوگا حتی کہ اگر سال مکمل ہونے سے پہلے وہ قرض ختم ہوگیا تو سال مکمل ہونے پر اسے زکوۃ ادا کرنا لازم ہے اور امام زفر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : قرض آجانے سے سال منقطع ہو جاتا ہے۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرض کی وجہ سے مالک سے غنی ہونے کی صفت ختم ہو جاتی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اس کا مال نصاب سے کم ہوگیا۔ اور سال کے دوران مال نصاب سے کم ہو جائے تو امام زفر رحمہ اللہ کے نزدیک سال منقطع ہو جاتا ہے اور ہمارے نزدیک اس سے سال منقطع نہیں ہوتا جیسا کہ یہ پہلے واضح ہو چکا ہے ، لہذا قرض لازم آنے والی صورت میں بھی یہی حکم ہوگا(کیونکہ قرض بھی ، مال کے نصاب سے کم ہونے کی مثل ہے)۔(المبسوط للسرخسي ،جلد2، صفحہ 160، دار المعرفہ ، بیروت)
اسی میں دوسری جگہ بلا ذکرِ اختلاف مسئلہ لکھا ہے:”لو وجب عليه دين مستغرق في خلال الحول ثم سقط الدين قبل تمام الحول فإنه يلزمه أداء الزكاة إذا تم الحول “ترجمہ: اگر اس پر سال کے دوران ایساقرض آگیا جو اس کے سارے مال کو گھیرے ہوئے ہے ، پھر سال مکمل ہونے سے پہلے وہ قرض ختم ہوگیا ،تو سال مکمل ہونے پر اس کےذمہ زکوۃ ادا کرنا فرض ہوگا۔(المبسوط للسرخسي، جلد3، صفحہ43، دار المعرفہ ، بیروت)
جوہرہ نیرہ میں ہے: ”وإن لحقه في وسط الحول دين يستغرق النصاب ثم بريء منه قبل تمام الحول فإنه تجب عليه الزكاة عند أبي يوسف لأنه يجعل الدين بمنزلة نقصان النصاب وقال محمد لا يجب لأنه يجعل ذلك بمنزلة الاستحقاق وإن كان الدين لا يستغرق النصاب بريء منه قبل تمام الحول فإنه تجب الزكاة عندهم جميعا إلا زفر فإنه يقول لا تجب“ترجمہ: اگر سال کے دوران اس پرایسا قرض لازم ہوگیا جو سارے نصاب کو گھیرے ہوئے ہو ،پھر وہ سال سے پہلے اس سے بری ہوگیا ،تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس پر زکوۃ واجب ہوگی ،کیونکہ امام ابویوسف قرض کو مال کے نصاب سے کم ہونے کی طرح قرار دیتے ہیں۔اور امام محمد کے نزدیک اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی کیونکہ وہ اسے استحقاق کی طرح قرار دیتے ہیں۔ اور اگر قرض ایسا تھا کہ جو پورے نصاب پر حاوی نہیں تھا، پھر وہ سال کے مکمل ہونے سے پہلے قرض سے بری ہوگیا تو ان تمام ائمہ کے نزدیک واجب ہوگی سوائے امام زفر کے کہ وہ فرماتے ہیں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔(الجوهرة النيرہ، جلد1، صفحہ 115، المطبعة الخيرية)
درمختار و رد المحتار میں ہے: ومابین الھلالین من الدر المختار” (وعروض الدين كالهلاك عند محمد، ورجحه في البحر) وعبارته: وعند أبي يوسف لا يمنع بمنزلة نقصانه، وتقديمهم قول محمد يشعر بترجيحه، وهو كذلك كما لا يخفى. وفائدة الخلاف تظهر فيما إذا أبرأه؛ فعند محمد يستأنف حولا جديدا لا عند أبي يوسف كما في المحيط. اهـ. أقول: إن كان مجرد التقديم يقتضي الترجيح فقد قدم في الجوهرة قول أبي يوسف، وأشار في المجمع إلى أنه قول أبي حنيفة أيضا، وأخر في شرحه دليلهما عن دليل محمد فاقتضى ترجيح قولهما لأن الدليل المتأخر يتضمن الجواب عن المتقدم، بل ما عزاه إلى محمد عزاه في البدائع وغيرها إلى زفر. وفي البحر في آخر باب زكاة المال عن المجتبى: الدين في خلال الحول لا يقطع حكم الحول وإن كان مستغرقا. وقال زفر: يقطع. اهـ. وجزم به الشارح هناك قبيل قول المصنف وقيمة العرض تضم إلى الثمنين، فقد ظهر لك ما في ترجيح البحر فتدبر “ترجمہ: قرض لاحق ہو جانا ، ایسے ہی ہے جیسے مال ہلاک ہوگیا امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک، اور اسی کو صاحبِ بحر نے ترجیح دی ہے۔صاحب بحر کی عبارت یہ ہے : ”امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک ، قرض لاحق ہونا زکوۃ واجب ہونے سے رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ یہ مال کے نصاب سے کم ہونے کی طرح ہے ۔ اور فقہاء کا امام محمد کے قول کو مقدم کرنا اس کی ترجیح کی خبر دیتا ہے اور بات ایسے ہی ہے جیسا کہ مخفی نہیں۔اختلاف کا فائدہ اس صورت میں ظاہر ہوگا کہ قرض خواہ، مقروض کو قرض معاف کر دے ،تو امام محمدکے نزدیک نیا سال شروع ہوگا اور امام ابو یوسف کے نزدیک نیا سال شروع نہیں ہوگا جیسا کہ محیط میں ہے۔ “انتہی (علامہ شامی فرماتے ہیں 🙂 میں کہتا ہوں: اگر فقط پہلے ذکر کرنا ترجیح کا تقاضا کرتا ہے تو پھر توصاحب جوہرہ نے امام ابو یوسف کے قول کو مقدم کیا ہے ۔اور صاحب مجمع نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہی امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی قول ہے اور انہوں نے اپنی شرح میں شیخین کی دلیل کو امام محمد کی دلیل سے مؤخر کیا ہے اور یہ چیز شیخین کے قول کی ترجیح کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ بعد والی دلیل پچھلی دلیل کے جواب کو متضمن ہوتی ہے، بلکہ جو بات امام محمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی ہے ، بدائع وغیرہ میں اسی بات کو امام زفر کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور صاحب بحر نے باب زکاۃ المال کے آخر میں مجتبیٰ کے حوالے سے نقل کیا کہ :”سال کے دوران قرض کا لازم آنا سال کے حکم کو منقطع کر دیتا ہے اگرچہ وہ قرض مال کو گھیرے ہوئے ہواور امام زفر فرماتے ہیں سال کا حکم منقطع ہو جاتا ہے۔“انتہی اور شارح (یعنی صاحب درمختار ) نے وہاں مصنف کے قول ” وقيمة العرض تضم إلى الثمنين “ سے کچھ پہلے امام ابو یوسف کے قول پر ہی جزم کیا ہے۔لہذا صاحب بحر نے جس انداز سے ترجیح دی ہے اس میں جو خلل ہے وہ آپ پر ظاہر ہوگیا ، آپ مزیدتدبر کر لیں۔ (الدر المختارورد المحتار، جلد2، صفحہ 263،264، دار الفکر، بیروت)
درمختار میں دوسری جگہ ہے: ”(وشرط كمال النصاب في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول. وأما الدين فلا يقطع ولو مستغرقا “ملتقطا ترجمہ: سال کے دونوں کناروں پر نصاب کا پورا ہونا شرط ہے ، ابتداء میں اس لیے کہ سال شروع ہوسکے اور انتہاء میں زکوۃ کے واجب ہونے کے لیے، لہذا دونوں کناروں کے درمیان اگر مال نصاب سے کم ہوگیا ،تو یہ کچھ مضر نہیں ، ہاں اگر کل مال ہلاک ہوگیا، تو سال منقطع ہو جائے گا۔ اور جہاں تک قرض کی بات ہے،تو اس کی وجہ سے سال منقطع نہیں ہوتا، اگرچہ قرض اس کے سارے مال کو گھیرے ہوئے ہو۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں : ” قدم الشارح ۔۔۔ أن عروض الدين كالهلاك عند محمد ورجحه في البحر. اهـ. وقدمنا هناك ترجيح ما هنا فراجعه “ملتقطا ترجمہ: شارح یعنی صاحب درمختار نے پیچھے یہ بات لکھی تھی کہ ”قرض لاحق ہو جانا ، ایسے ہی ہے جیسے مال ہلاک ہوگیا امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک، اور اسی کو صاحب بحر نے ترجیح دی ہے۔“ ہم نے اُس مقام پر یہ وضاحت کی تھی کہ حقیقت میں ترجیح اسی بات کو ہے جو یہاں انہوں نے لکھی ہے (کہ یہ مال کے ہلاک ہونے کی طرح نہیں اور اس سے سال منقطع نہیں ہوتا)، لہذا آپ اس مقام کی طرف مراجعت کر لیں۔(الدر المختارورد المحتار، جلد2، صفحہ 302، دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ”جو دَین اثنائے سال میں عارض ہوا یعنی شروع سال میں مدیُون نہ تھا پھر مدیُون ہوگیا، پھر سال تمام پرعلاوہ دَین کے نصاب کا مالک ہوگیا،تو زکاۃ واجب ہوگئی، اس کی صورت یہ ہے کہ فرض کرو قرض خواہ نے قرض معاف کر دیا تو اب چونکہ اس کے ذمہ دَین نہ رہا اور سال بھی پورا ہو چکا ہے، لہٰذا واجب ہے کہ ابھی زکاۃ دے، یہ نہیں کہ اب سے ایک سال گزرنے پر زکاۃ واجب ہوگی اور اگر شروع سال سے مدیُون تھا اور سال تمام پر معاف کیا تو ابھی زکاۃ واجب نہ ہوگی،بلکہ اب سے سال گزرنے پر۔ “(بھار شریعت، جلد 1، صفحہ879،880، مکتبۃ المدینہ،کراچی )
سال کے آخر میں اگر قرض منہا کرنے کے بعد نصاب نہ بچے تو زکوۃ فرض نہیں ہوتی اور اس کے بعد جب نصاب پورا ہو تو وہاں سے نیا سال دوبارہ شروع ہوتا ہے، اس حوالے سے بہار شریعت میں ہے: ” نصاب کا مالک ہے مگر اس پردَین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکاۃ واجب نہیں، خواہ وہ دَین بندہ کا ہو، جیسے قرض، زرثمن ، کسی چیز کا تاوان یا اﷲ عزوجل کا دَین ہو، جیسے زکاۃ، خراج مثلاً کوئی شخص صرف ایک نصاب کا مالک ہے اور دو سال گزر گئے کہ زکاۃ نہیں دی تو صرف پہلے سال کی زکاۃ واجب ہے دوسرے سال کی نہیں کہ پہلے سال کی زکاۃ اس پر دَین ہے اس کے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتی، لہٰذا دوسرے سال کی زکاۃ واجب نہیں۔ یو ہیں اگر تین سال گزر گئے، مگرتیسرے میں ایک دن باقی تھا کہ پانچ درم اور حاصل ہوئے جب بھی پہلے ہی سال کی زکاۃ واجب ہے کہ دوسرے اور تیسرے سال میں زکاۃ نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں، ہاں جس دن کہ وہ پانچ درم حاصل ہوئے اس دن سے ایک سال تک اگر نصاب باقی رہ جائے تو اب اس سال کے پورے ہونے پر زکاۃ واجب ہوگی۔ “(بھار شریعت، جلد 1، صفحہ878، مکتبۃ المدینہ،کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم