سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ جس شخص کی بیوی سیدہ ہو کیا اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے جبکہ وہ مستحقِ زکوۃ بھی ہو؟ اگر زکوۃ دی جاسکتی ہے تو اس کی زکوۃ میں ظاہر ہے اس کی سیدہ بیوی بھی تصرف کرے گی؟ اس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں سیدہ کا شوہر اگر سید، ہاشمی نہ ہو اورشرعی فقیر بھی ہو تو اُسے زکوۃ دے سکتے ہیں ، سیدہ سے نکاح کے سبب وہ سید نہیں کہلائے گا۔ البتہ شوہر وہ زکوٰۃ کی رقم آگے اپنی سیدہ بیوی کو دے گا تو اس کی حیثیت اب زکوٰۃ کی نہیں ہوگی بلکہ تحفے اور نذرانے کی ہوگی اور شرعاً سید تحفہ قبول کرسکتا ہے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
شرعی فقیر زکوۃ کا مصرف ہے۔ چنانچہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(باب المصرف)ای مصرف الزکاۃ و العشر۔۔۔ (ھو فقیر، و ھو من لہ ادنی شیء)ای دون نصاب “ یعنی زکوۃ اور عشر کا ایک مصرف فقیر بھی ہے اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے جونصاب سے کم مال کا مالک ہو ۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار ،کتاب الزکاۃ، ج03، ص333، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطا)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:” من جملۃ ذالک الفقراء و المساکین “یعنی مستحقین زکاۃ میں سے فقراء اور مساکین بھی ہیں۔(فتاوٰی تاتارخانیہ،ج03،ص 198،مطبوعہ ہند)
بہارِ شریعت میں ہے:”فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا مکان، پہننے کے کپڑے، خدمت کے لیے لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں ، جس کا بیان گزرا ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 924، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سید کی غیر ِسیدہ زوجہ کو زکوۃ دینے سے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”زید اپنی اس ہمشیرہ کو جو سید کے نکاح میں ہے زکاۃ دے سکتا ہے۔“(فتاوٰی امجدیہ ،ج01،ص390،مکتبہ رضویہ، کراچی)
فتاوٰی خلیلیہ میں ہے ”عورت جبکہ خود سادات و بنی ہاشم سے نہیں،کسی سید کے نکاح میں جانے سے سید ہ نہیں بن گئی ہے ،اس لئے اگر وہ مصرف زکاۃ ہے تو اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے ۔“ (فتاوٰی خلیلیہ،ج 01،ص 502،ضیاء القرآن ،لاہور)
دس تولہ زیور جس میں پانچ تولہ والدہ کا اور پانچ تولہ بیٹی کا ہو تو زکوۃ کا حکم
سید نفلی صدقہ قبول کرسکتا ہے۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مراۃ المناجیح میں ارشاد فرماتے ہیں: ”خیال رہے کہ غنی اور سید کو صدقہ نفل لینا جائز ہے ، وہ صدقہ ان کے لیے ہدیہ بن جاتا ہے ۔“(مرآۃ المناجیح، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص 48، نعیمی کتب خانہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم