عربی تحریر والے لباس کا واقعہ اور پروپیگنڈہ
کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آجکل کچھ برینڈ اپنے کپڑوں پر مختلف تحریریں ، شاعری وغیرہ چھاپتے ہیں، اس کو پہننا شرعاکیسا ہے ؟کچھ دن پہلے لاہور شہر میں ایک عورت نے یونہی عربی انداز کی تحریر والا لباس پہنا جس پر عام عوام کو لگا کہ یہ قرآ ن لکھا ہے کیونکہ اس کی تحریر کا انداز ہی ایسا تھا۔ اس پر کئی لبرل قسم کے لوگ دیندار طبقہ پر اعتراض کررہے ہیں کہ یہاں مولوی گستاخ رسول کہہ کر قتل و غارت کرتے ہیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
لباس پر اگر دینی تحریر ہو جیسے قرآن واحادیث تو یہ پہننا جائز نہیں کہ یہ ضرور بے ادبی کو مستلزم ہے ۔ اگر ایسا لباس ہوجس پر کچھ تحریر ہو خواہ وہ سادہ تحریر ہو یا شاعری وغیرہ ،اسے پہننا منع ہے کہ اس میں حروف تہجی ( جن سے کلام بنتا ہے )کی بے ادبی کے کئی پہلو موجود ہیں۔اور حروف تہجی کا ادب کرنے کا کہا گیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں وہ الھامی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی)ہیں اور ان کا ادب ضروری ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’آیہ کریمہ کہ اخبار کی طبلق یا کارڈ یا لفافوں پر چھپوانا ضرور بے ادبی کو مستلزم اور حرام کی طرف منجرہے اس پر چھٹی رسانوں وغیرہم بے وضو بلکہ جنب بلکہ کفار کے ہاتھ لگیں گے جو ہمیشہ جنب رہتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ قال تعالیٰ{ لایمسہ الا المطھرون } اللہ تعالیٰ نے فرمایا :قرآن مجید کو صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔
مہریں لگانے کے لئے زمین پر رکھے جائیں گے پھاڑ کر ردی میں پھینکے جائیں گے ان بے حرمتیوں پر آیت کا پیش کرنا اس کا فعل ہوا
کردم از عقل سوالے کہ بگہ ایمان چیست عقل درگوش ودلم گفت کہ ایمان ادب ست
(ترجمہ:میں نے عقل سے یہ سوال کیا کہ تو یہ بتادے کہ ایمان کیا ہے۔ عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا کہ ایمان ادب کا نام ہے۔)
نسأل اﷲحسن التوفیق (ہم اللہ تعالیٰ سے اچھی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔)اس سوال کا منشا ہی اس کے جواب کو بس تھا کہ قلب کی حالت ایمانی نے ان دونوں باتوں میں خدشہ جانا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’الاثم ماحاک فی صدرک ‘‘گناہ وہ جو تیرے دل میں کھٹکے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ،جلد23،صفحہ393،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ اشتہار بازار اور کوچوں میں ہوتے ہیں اور خشک ہو کر نالیوں میں گر پڑتے ہیں اور اکثر نالیوں اور بازاروں میں پڑے رہتے ہیں ان پر قرآن پاک کی آیات اور حدیثیں لکھی ہوتی ہیں سخت درجہ کی بے ادبی اور بے عزتی ہوتی ہے اس بارے میں کیا حکم ہے ؟تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا :
”ایسے اشتہاروں پر جو ان مواقع بے حرمتی میں چسپاں کیے جاتے ہیں آیات و احادیث لکھنا منع ہے اور لکھی ہوں تو چسپاں کرنا ایسی جگہ جائز نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دیئے جائیں اور ان پر لازم کہ ادب وحرمت کو ملحوظ رکھیں ۔“ (فتاوٰی امجدیہ ،جلد4،صفحہ77، مکتبہ رضویہ کراچی)
در مختار میں ہے:
” يكره مجرد الحروف “ترجمہ: صرف حروف ( کا لکھنا بھی) مکروہ ہے۔(درمختار، كتاب الطهارة، باب المياه، ج 1، ص 322، دار عالم الكتب)
تفسیر کبیر میں امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں
”اللغات کلھا توقیفیۃ“
ترجمہ:(دنیا میں بولی جانے والی) تمام زبانیں الھامی ہیں۔(التفسیر الکبیر،الجزالثانی،سورت البقرہ،آیت31،جلد1،صفحہ396،مکتبہ کوئٹہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:
’’ ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفس حروف قابل ادب ہیں اگر چہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون، ابوجہل وغیرہما، تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگر چہ ان کافروں کانام لائق اہانت وتذلیل ہے۔’’فی الھندیۃ اذا کتب اسم فرعون اوکتب ابوجھل علی غرض یکرہ ان یرموا الیہ لان لتلک الحروف حرمۃ کذ ا فی السراجیۃ ‘‘فتاوٰی ہندیہ میں ہے جب فرعون اور ابوجہل وغیرہ کے نام کسی غرض کے لئے لکھے جائیں تو مکروہ ہے کہ انھیں کہیں پھینک دیں اس لئے کہ ان حروف کی عزت وتوقیر ہے جیسا کہ ”سراجیہ ” میں مذکور ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ،جلد23،صفحہ336،رضافائونڈیشن،لاہور)
روزہ کی حالت میں نمک وغیرہ چکھنا
امیر اہلسنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:
’’ خود ابوجہل کی کوئی تعظیم نہیں کہ یہ تو سخت کافر تھا مگر چونکہ لفظِ ابوجہل کے تمام حروف تہجی(ا ب و ج ہ ل) قرآنی ہیں۔اس لئے لکھے ہوئے لفظ ابوجہل کی (نہ کہ شخصِ ابو جہل کی) ان معنوں پر تعظیم ہے کہ اس ناپاک یا گندی جگہوں پر ڈالنے اور جوتے مارنے وغیرہ کی اجازت نہیں۔‘‘ (مقدس تحریرات کے ادب کے بارے میں سوال وجواب،صفحہ8،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
مزیدامیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ ”فیضان سنت “میں فرماتے ہیں:
”ہر زبان کے حروف تہجی کی تعظیم کی جائےکہ صاحب تفسیر صاوی کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان الھامی ہے۔“(فیضان سنت،باب فیضان بسم اللہ،صفحہ122،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
ایک جگہ امیر اہلسنت فرماتے ہیں:
” مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ،حروف مفردہ( جدا جدا)اور سادہ کاغذ کا بھی ادب بجا لاتے کیونکہ انسے ہی قرآن اور حدیث لکھے جاتے ہیں۔“ (فیضان سنت ،باب فیضان بسم اللہ، صفحہ 110،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
لاہور میں ہونے والا واقعہ
جہاں تک لاہور میں ہونے والا واقعہ ہے تو اگر بالفرض اس عورت نے قرآنی لباس بھی پہنا ہوتا تو اس لبرل ٹولے نے اس عورت ہی کا دفاع کرنا تھا اور دیندار طبقہ پر اعتراض کرنا تھا جیسا کہ ان کی پرانی روش ہے۔ ان جاہلوں نے اس پر یہ دلیل دینی تھی کہ سعودیہ جہاں پر دین اترا ہے وہاں قرآن زمین پررکھا ہوتا ہے اور سعودیہ والوں نے ناچنے والی کو کلمہ شریف لکھا ہوا لباس پہنایا تھا اور فٹ بال ٹورنامنٹ میں فٹ بال پر بھی سعودیہ جھنڈا چھاپا تھا جس میں کلمہ لکھا ہوا ہے وغیرہ۔یعنی ان لبرل اور جاہل لوگوں نے تب بھی یہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرنی تھی کہ قرآنی آیات والا لباس پہننا بھی جائز ہے حالانکہ یہ شرعا واضح بے ادبی ہے اور سعودیہ والے کیا کرتے ہیں وہ ہمارے لیے دلیل نہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ علمائے کرام نے اس طرح کے نازک موقع پر ہمیشہ سمجھداری سے کام لیا ہے اور بروقت لوگوں کی صحیح راہنمائی کی ہے۔ ا س موقع پر بھی انہوں نے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر جب کسی نے اپنی ذاتی مفاد میں ناموس رسالت کو آڑ بنانے کی کوشش کی تو علمائے کرام ہی نے اسے بے نقاب کیا جیسے کچھ عرصہ پہلے ایک سکیورٹی گارڈ نے بینک مینیجر کو قتل کرکے یہ کہانی بنائی تھی کہ مینیجر نے گستاخی کی تھی۔یونہی کئی مرتبہ بڑی کمپنیوں کے ڈیزائن میں لفظ ”اللہ “ یا ”محمد“ لکھے ہونے کا شبہ ہو ا تو علمائے کرام نے اس پر بھی عوام کو اشتعال سے بچایا اور لوگوں کے کاروبار کو شدید نقصان سے بچایا۔
آج تک کبھی بھی کسی کورٹ نے بے گناہ کو گستاخ نہیں ٹھہرا یا اور نہ ہی علمائے کرام نے کبھی زبردستی بے گناہ کو گستاخ ثابت کیا ہے ۔البتہ جو واضح گستاخ تھےبلکہ جنہوں نے اپنی گستاخی کا اقرار بھی کرلیا تھا، ان کو ججوں نے رہا کیا اور سیاسی لیڈروں نے انگریزوں کو خوش کر کے سیاست چمکائی ہے اور لبرل لوگوں نے اس پر بھی الٹا علماء ہی پر تنقید کرکے اپنی مغربی آقاؤں سے پیسے کمائے ہیں۔
مستند مفتیانِ کرام کفر کا فتوی صادر کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے اس حوالے سے کتب فقہ بھری پڑی ہیں۔فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:
” زید نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کے شروع میں عربی عبارت میں اس طرح لکھا ہے: بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم الھٰنا محمد وھو معبود جل شانہ وعزبرہانہ ورسولنا محمد و ھو محمود صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ ان الفاظ کی کوئی تاویل ہوسکتی ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو ایسے لکھنے والے پر شرعا کیا حکم ہے اور اس سے میل جول رکھنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا اور ایسے اعتقاد والے سے نکاح وغیرہ پڑھوانا شرعا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔ جواب مع عبارات تحریر فرمائیں۔“
اب اس تحریر میں بظاہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الہ یعنی معاذ اللہ خدا کہنا بن رہا تھا لیکن امام احمد رضاخا ن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ہمارے ائمہ نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجب ہے کہ احتمال اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خلاف ثابت نہ ہو، پہلے جملہ میں محمد بفتح میم کیوں پڑھا جائے مُحَمِّد بکسر میم کہا جائے یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم محمد ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم باربار بکثرت حمدوثنا کئے گئے، اور ان کار ب عزوجل ان کا محمد ہے بار بار بکثرت ان کی مدح وتعریف فرمانے والا، اب یہ معنی صحیح ہوگئے اور لفظ بالکل کفر سے نکل گیا اور اگر بفتح میم ہی پڑھیں اور معنی لغوی مراد ہیں یعنی ہمارا رب بکثرت حمد کیا گیاہے جب بھی عنداللہ کفر نہ ہوگا مگر اب صرف نیت کا فرق ہوگا بہرحال ناجائز ہونے میں شبہہ نہیں۔
ردالمحتارمیں ہے”مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع “ محض معنی محال کا وہم بھی منع کے لئے کافی ہوتاہے۔
مصنف کو توبہ چاہئے اور اسے متنبہ کیا جائے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں مگریہ کہ کوئی حالت خاصہ داعی ہو، واللہ تعالیٰ اعلم۔“(فتاوی رضویہ،جلد14،صفحہ604،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
17شعبان المعظم 1445ھ28فروری 2024ء