کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت ، جو تین چھوٹی آیات کے برابر ہو ، پڑھنا واجب ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ بڑی آیت کی مقدار کیا ہے ؟جیسے بعض دفعہ صرف آیت ﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ﴾آخر تک یا پھر سورۃ الحشر کی آخری آیت پڑھ کر رکوع کردیا جاتا ہے ، تو کیا اس سے ایک بڑی آیت پڑھنے کا واجب ادا ہو جائے گا ؟مہربانی فرما کر تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں آیت ﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ﴾الخ ، اسی طرح سورۃ الحشر کی آخری آیت ﴿ هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ﴾الخ پڑھنے سے واجب ادا ہو جائے گا اور نماز بھی ہوجائے گی ۔ اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیات کے برابر ہو، اس سے سورت ملانے کا واجب ادا ہوجائے گا ۔ بڑی آیت کا مدار تین چھوٹی آیات کے برابر ہونا ہے اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے تین چھوٹی آیات کو معیار بناتے ہوئے ان کی مقدار تیس حروف بیان فرمائی ہے ۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ نے ﴿ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر و استکبر ﴾کو سب سے چھوٹی تین آیات قرار دیا اور پڑھنے کے اعتبار سے ان کے حروف تیس بنتے ہیں ،تو یوں واجب مقدار کے حروف کو تیس متعین کیا ،جبکہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ثم نظر‘‘ الخ کے علاوہ ’’والفجر ‘‘سے تین آیات کے پچیس حروف ہونا ثابت کیے ہیں اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک یہی مختار ہے اور علامہ شامی نے بھی جو مدار بیان کیا ، وہ سب سے چھوٹی آیات ہونے کے اعتبار سے بیان کیا ہے اور ان میں حروف تیس بن رہے ہیں ، لہذا تیس حروف کو بیان کردیا ،لیکن اصل مدار تیس حروف نہیں ، بلکہ تین چھوٹی آیات ہیں اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ان سے چھوٹی تین آیات کا ہونا ثابت کردیا اور اسی پر آپ نے فتوی بھی دیا ، البتہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے علامہ شامی علیہ الرحمۃ کے قول کے مطابق قراء ت کرنے کو بہتر فرمایا ہے ، تو احتیاط یہی ہے کہ ایسی بڑی آیت یا چھوٹی تین آیات جن میں تیس حروف ہوں ، وہ پڑھنی چاہییں ، مگر پچیس حروف والی آیت سے بھی واجب ادا ہوجائے گا اور اسی پر فتاوی رضویہ میں فتوی موجود ہے ۔ سورۂ فاتحہ کے بعد ایک بڑی آیت ، جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو ، پڑھنے سے واجب ادا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”و ضم اقصر سورۃ کالکوثر او ما قام مقامھا و ھو ثلاث آیات قصار نحو’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘و کذا لو کانت الآیۃ او الآیتان تعدل ثلاثا قصارا “ ترجمہ : ( نماز کے واجبات میں سے ایک واجب فاتحہ کے ساتھ )سب سے چھوٹی سورت کا ملانا ہے ، جیسا کہ سورۂ کوثر یا جو اس کے قائم مقام ہو اور وہ ( قائم مقام ) تین چھوٹی آیات ہیں ، جیسے ’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘ اور اسی طرح اگر ایک آیت یا دو آیتیں ، جوتین چھوٹی آیتوں کے برابر ہوں۔ (در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوۃ ، جلد 2 ، صفحہ 185 ، مطبوعہ کوئٹہ ) سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”الحمد شریف تمام وکمال پڑھنا ایک واجب ہے اوراس کے سوا کسی دوسری سورت سے ایک آیت بڑی یا تین آیتیں چھوٹی پڑھنا واجب ہے ۔ “ (فتاوی رضویہ،ج6، ص 330، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) ایک اور مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”پوری سورہ فاتحہ اور اس کے بعدمتصلاً تین آیتیں چھوٹی چھوٹی یا ایک آیت کہ تین چھوٹی کے برابر ہو ، پڑھنا واجب ہے ۔ اگر اس میں کمی کرے گا نماز تو ہوجائے گی یعنی فرض ادا ہو جائے گا ، مکروہِ تحریمی ہوگی، بھول کر ہے تو سجدہ سہو واجب ہوگا اور قصداً ہے تو نماز پھیرنی واجب ہوگی اور بلا عذر ہے تو گنہگار بھی ہو گا ۔ مثلاً تین آیتیں یہ ہیں ﴿ثُمَّ نَظَرَ ﴿ۙ۲۱﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ﴿ۙ۲۲﴾ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَکْبَرَ ﴿ۙ۲۳﴾﴾یا یہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ ۙ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ؕ﴿۲﴾خَلَقَ الْاِنۡسانَ ۙ﴿۳﴾ ﴾ظاہر ہےکہ وہ (یعنی سوال میں مذکور) دو آیتیں ﴿ وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ بلکہ اس میں کی پہلی ہی آیت ان تین چھوٹی آیتوں سے بڑی ہے ، تو نماز مع واجب ادا ہو گئی ، دہرانے کی حاجت نہیں۔“ (فتاوی رضویہ،ج6، ص 347، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) ایک بڑی آیت کی مقدار کے بارے میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ لم أر من قدر ادنیٰ ما یکفی بحد مقدر من الآیۃ الطویلۃ ۔۔۔۔ لکن التعلیل الاخیر ربما یفید اعتبار العدد فی الکلمات او الحروف ، ویفید قولھم : لو قرأ آیۃ تعدل اقصر سورۃ جاز و فی بعض العبارات تعدل ثلاثا قصارا : ای کقولہ تعالیٰ’’ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ‘‘ و قدرھا من حیث الکلمات عشر و من حیث الحروف ثلاثون ، ملخصا ‘‘ ترجمہ : بڑی آیت کی مقدار کی حد میں جو ( نماز کے وجوب کے لیے) کافی ہے ، اس کی کسی نے ادنی مقدار مقرر کی ہو ، ایسا میں نے نہیں دیکھا ۔۔۔۔ لیکن آخری(بیان کردہ ) علت ، کلمات اور حروف میں تعدادکے معتبر ہونے کا فائدہ دے رہی ہے اور فقہاء کا یہ قول ’’ اگر کسی نے ایسی ایک آیت پڑھی ، جو سب سے چھوٹی سورت کے برابر ہو ، نماز جائز ہے“ اور بعض عبارات میں ہے کہ وہ بڑی آیت چھوٹی تین ( آیات) کے برابر ہو یعنی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر واستکبر ﴾ اور اس کی مقدار کلمات کے اعتبار سے دس کلمے بنتے ہیں اور حروف کے اعتبار سے تعداد ، تیس حروف ہے ۔‘‘ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوۃ ، فصل فی القراءۃ ، جلد 2 ، صفحہ 314 ، مطبوعہ کوئٹہ ) مذکورہ بالا آیات کے سب سے چھوٹی ہونے کے بارے میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ و لا یوجد ثلاث متوالیۃ اقصر منھا، فالواجب اما ھی او ما یعدلھا من غیرھا ‘‘ ترجمہ : ( مذکورہ بالا آیات ) سے چھوٹی تین آیات کہیں بھی پائی نہیں جاتیں ، لہٰذا واجب یہ آیات ہیں یا ان کے علاوہ جو اِن کے برابر ہوں ۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوۃ ، جلد 2 ، صفحہ 185 ، مطبوعہ کوئٹہ ) سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جد الممتار میں ان سے بھی چھوٹی آیات ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اقول : بلیٰ ! فقولہ تعالیٰ : ’’ قم فانذر ، و ربک فکبر ، و ثیابک فطھر ‘‘ ثمانیۃ و عشرون حرفا مقروءا و خمسۃ و عشرون مکتوبا و قولہ تعالیٰ : ’’و الفجر ، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر ‘‘ خمسۃ و عشرون حرفا و المکتوب ستۃ و عشرون ، فاذن ینبغی ادارۃ الحکم علیٰ خمسۃ و عشرین حرفا سواء اریدت المقروءات کما ھو الالیق او المکتوبات ‘‘ ترجمہ : میں کہتا ہوں : کیوں نہیں (علامہ شامی کی بیان کردہ آیات سے چھوٹی آیات بھی موجود ہیں ) اللہ پاک کا فرمان:’’ قم فانذر ، و ربک فکبر ، و ثیابک فطھر ‘‘ پڑھے جانے والے اٹھائیس حروف ہیں اور لکھے جانے والے پچیس حروف ہیں اور اللہ پاک کا یہ فرمان :’’و الفجر ، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر ‘‘ پچیس حروف ہیں اور لکھے جانے والے چھبیس حروف ہیں ، تو اب حکم کا مدار پچیس حروف پر ہونا ،مناسب ہے ، چاہے پڑھے جانے والے حروف مراد ہوں ، جیسا کہ یہی زیادہ لائق ہے ، یا لکھے جانے والے حروف ہوں ۔ ( جد الممتار ،کتاب الصلوۃ ، باب صفۃ الصلوۃ ، جلد 3 ، صفحہ 153 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی ) بہترعلامہ شامی کے تیس حروف والے قول کے مطابق ہی قراءت کرنا ہے ۔ جیسا کہ امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ یوں سولہویں رکعت میں یہ دونوں آیتیں واقع ہوں گی:’’ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ ‘‘ بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک آیت اور ملائی جائے ، کہ ان میں صرف ستائیس حرف ہیں اور رد المحتار میں کم از کم تیس حرف درکار بتائے ۔ و ان کان فیہ کلام بیناہ علی ھامشہ مع ان المقروات فیھما ثلٰثون ( اگرچہ اس میں کلام ہے ۔ جیسے ہم نے حاشیہ رد المحتار میں تحریر کیا ہے ، علاوہ ازیں ان آیات میں مقروات تیس ہیں ۔ ) ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 6 ، صفحہ 348 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور ) اسی وجہ سے بعد میں علمائے کرام نے اختلافِ علماء سے نکلنے کے لیے مطلقاً علامہ شامی کے قول ہی کو ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں :’’ ( آیت : لقد جاءکم رسول من انفسکم الآیۃ الخ پڑھنے کی صورت میں ) نماز درست ہو گئی ۔’’ تین آیت پڑھنا واجب ہے ‘‘ اس کا یہ مطلب ہے کہ تین چھوٹی آیتیں ہوں یا ان کے برابر ، بلکہ اگر آدھی آیت تین چھوٹی آیات کے برابر ہو ، جب بھی نماز ہوجائے گی ۔ تین چھوٹی آیت کی مثال فقہاء نے یہ دی ہے :ثم نظر ، ثم عبس و بسر ، ثم ادبر و استکبر ، کہ ان آیات کے حروف کل تیس ہیں ، لہٰذا اگر تیس حروف کی ایک آیت پڑھ دی ، واجب ادا ہوگیا ۔ ‘‘ ( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 1 ، صفحہ 97 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی ) پہلی رکعت کے بعد قعدے میں بیٹھ گیا تو نماز کا حکماسی وجہ سے مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ نے فرمایا :’’چھوٹی آیت کی مقدار فقہاء نے یہ لکھی علامہ ابن عابدین متوفیٰ 1252 ھ نے فتاویٰ شامی میں لکھا : ’’ قدرھا من حیث الکلمات عشر و من حیث الحروف ثلاثون ‘‘ یعنی نماز میں قراءت کی مقدار کلمات کے اعتبارسے کم از کم دس کلمے ہوں اور حروف کے اعتبار سے تیس حروف ہوں ۔ ‘‘ ( وقار الفتاویٰ ، جلد 2 ، صفحہ 82 ، مطبوعہ بزمِ وقار الدین ، کراچی ) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
|
Tags تو کیا حکم ہے ؟ سورۂ فاتحہ کے بعد اگر ایک ہی آیت پڑھیں کتنی ایت پڑھنا ضروری ہے کیا تین آیتیں ہی ضروری ہے