سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام اگر قعدہ اولی میں مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے کھڑا ہوجائے یا قعدہ اخیرہ میں مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے سلام پھیردے ،تو دونوں صورتوں میں مقتدی پر تشہد مکمل پڑھنا لازم ہے یا مکمل کیے بغیر فوراً امام کی اتباع کرناضروری ہے ؟
جواب: قوانینِ شرعیہ کی رُو سے نماز کے فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی اتباع کرنا واجب ہے ،لیکن اگر امام کی اتباع کرنے میں کسی واجب کا ترک لازم آتا ہو ،تو وہاں مقتدی کے لیے حکم یہ ہوتا ہےکہ وہ پہلے اس واجب کو ادا کرے،پھر امام کی اتباع کرے ،اور چونکہ تشہد کا مکمل پڑھنا بھی واجب ہے ،لہذا دریافت کی گئی صورت میں امام اگر قعدہ اولی میں مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے کھڑا ہوجائے، تو اسے حکم ہے کہ پہلے تشہد مکمل کرے ،پھر کھڑا ہو کر امام کی اتباع کرے،یونہی اگر قعدہ اخیرہ میں مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے ہی امام نے سلام پھیر دیا تو مقتدی پہلے تشہد ( عبدہ ورسولہ تک)مکمل کرے ،پھر سلام پھیرے،اور اگر مقتدی نے تشہد مکمل کرلیا اور درود پاک یا دعا پڑھ رہا تھا کہ امام نے سلام پھیر دیا، تو اب اسے حکم ہے کہ فوراً امام کی اتباع کرتے ہوئے سلام پھیر دے۔
خاتم المحققین علامہ محمد امین ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1252ھ)رد المحتار میں فرماتے ہیں:” أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة، فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابع، كما لو قام الإمام قبل أن يتم المقتدي التشهد فإنه يتمه ثم يقوم لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية، وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية“ترجمہ:فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی متابعت واجب ہے ،اگر امام کی متابعت کرنے میں کسی واجب کا تعارض پڑے، تو (مقتدی)اس واجب کو نہ چھوڑے ،بلکہ اسے ادا کرے، پھر امام کی متابعت کرے ،جیسے اگر مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے، تو مقتدی تشہد مکمل کرے ،پھر کھڑا ہو ،کیونکہ تشہد مکمل کرنے میں امام کی متابعت بالکلیہ فوت نہیں ہوگی ،بلکہ تشہد مکمل کرنے کی وجہ سے متابعت مؤخر ہوجائے گی، لیکن تشہد مکمل کیے بغیر امام کی متابعت کرنے کی صورت میں تشہدبالکلیہ فوت ہوجائے گی ،پس دونوں واجبوں کی ادائیگی کے ساتھ کسی ایک واجب کی ادائیگی میں تاخیرکرنا،دونوں واجبوں میں سے کسی ایک کو بالکلیہ ترک کرنے سے بہتر ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،ج 2،ص 202،دار المعرفہ،بیروت)
فقیہ النفس امام حسن بن منصور اوزجندی المعروف بقاضی خان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 592ھ)فتاوی قاضی خان میں فرماتے ہیں:” إذا قام الإمام إلى الثالثة قبل أن يفرغ المقتدي من التشهد فإن المقتدي يتم التشهد ثم يقوم وكذا لو سلم الإمام قبل أن يفرغ المقتدي من التشهد فإنه يتم التشهد ۔۔۔لأن قراءة التشهد واجبة ولهذا يلزمه السهو بتركه ساهيا(ملتقطا)“ترجمہ:جب امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا ،تو مقتدی تشہد کو مکمل کرے، پھر کھڑا ہو ،یونہی اگر مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے ہی امام نے سلام پھیر دیا ،تو مقتدی پہلے تشہد مکمل کرے (پھر سلام پھیرے )کیونکہ تشہد کا مکمل پڑھنا واجب ہے ،اسی لیے تشہد بھولے سے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوتا ہے۔(فتاوی قاضی خان،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص90 ، 91 ،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگرمقتدی ابھی التحیات پوری نہ کرنے پایاتھا کہ امام کھڑاہوگیایاسلام پھیردیا، تومقتدی التحیات پوری کرلے یا اتنی ہی پڑھ کر چھوڑدے؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ہرصورت میں پوری کرلے ،اگرچہ اس میں کتنی ہی دیرہوجائے۔“ (فتاوی رضویہ،ج 7،ص 52،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم