فاتحہ میں کہا جاتا ہے "ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کم و بیش”کیا یہ بولنا صحیح ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس طرح بولنا بالکل درست ہے۔کیونکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی تعداد معین کرنا جائز نہیں ہےکہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں ۔لہذا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں کہنا ہو تو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ۔بہارشریعت میں ہے ” انبیاء کی کوئی تعداد معیّن کرنا جائز نہیں، کہ خبریں اِس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معیّن پر ایمان رکھنے میں نبی کو نبوّت سے خارج ماننے، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں، لہٰذا یہ اعتقاد چاہیے کہ اﷲ (عزوجل) کے ہر نبی پر ھمارا ایمان ہے۔ "(بہارشریعت،ج01،حصہ01،ص52،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم