سوال: غیر مسلم کی تعظیم کا کیا حکم ہے اور کوئی غیر مسلم جو عمر میں بڑا ہو، اس کو ”او انکل“ یا ”او آنٹی“ کہہ کر پکارنے کیا حکم ہوگا؟ نیز کسی غیر مسلم کو اپنا ٹیچربناسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: کافر کی تعظیم کفر ہے جبکہ اس کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے اور اگر مذکورہ الفاظ تعظیم کے لیے نہیں کہے بلکہ کسی مجبوری میں کہے جیسے اسے مخاطب یا متوجہ کرنے کے لیے یا اگر نہیں کہتا تو وہ کوئی نقصان پہنچائےگا تو حرج نہیں۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی مدظلہ العالی ’’ کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ اگر کافر کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے گا تو خود کافر ہو جائے گا۔‘‘(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،صفحہ435-436،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
خیال رہے کہ غیر مسلم کو استاد بنانے میں ایمان کو سخت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ غیر مسلم اپنے لیکچر کے دوران کفریات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دینِ اسلام پر ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں،سننے والا اگر اس کی اس بات سے راضی رہا یا ہاں میں ہاں ملائی،تو بہت خطرہ ہے کہ خود مسلمان نہ رہے خصوصاً جبکہ اس غیر مسلم نے صریح کفریہ بات کی ہو۔ نیز استاد جو بھی ہو اس کا ادب و تعظیم دل میں آجاتے ہیں اور غیر مسلم کی تعظیم سے کفر میں جا پڑنے کا امکان رہتا ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’غیر مذہب والیوں( یا والوں ) کی صُحبت آگ ہے، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں کے مذہب(بھی)اس میں بگڑ گئے ہیں۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصّہ مشہور ہے، یہ تابِعین کے زمانہ میں ایک بڑامُحدِّث تھا ،خارِجی مذہب کی عورت کی صُحبت میں مَعاذَاللہ خود خارِجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُسے سُنّی کرنا چاہتا ہے ۔جب صُحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ، تو غیر مذہب عورت(یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں اپنے بچّوں کو وُہی دے گا جو(خود) آپ (ہی)دین سے واسِطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچّوں کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا۔‘‘( فتاوٰی رضویہ، جلد 23، صفحہ 692،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم