سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا ،بیماری کی وجہ سے انتظامیہ نے زید کو فیکٹری سے نکال دیا ،بقایاجات بھی پورے ادا نہیں کیے ۔زید نے قرض لےکر اپنا علاج کروایا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ کیا ۔اب زید اپنی بیماری کے باعث سخت کام نہیں کرسکتا ،معمولی کام ملتا نہیں ۔زید کو قرض خواہ بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں ،زید کا ذریعہ معاش کچھ نہیں ہے ۔اس صورت حال میں زیدکا مالی فوائد حاصل کرنے کے لیےاُوپر اُوپر سے قادیانی ہونا کیسا ہے ؟
جواب: زید کا مالی فوائد کے حصول کے لیے صرف اُوپر اُوپر سے بھی قادیانی ہونا کفر ہے، کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی شخص قادیانی ہوگا (اگرچہ وہ اوپر سے ہی ہو )تو وہ کفریہ باتوں کا اقرار کرے گا اورجان بوجھ کر کفریہ باتوں کا محض اقرار کرنے سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کا عقیدہ وہ نہ ہو ۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’بَیِّن وواضح کہ یہاں کوئی صورتِ اِکراہ نہ تھی اور بِلا اِکراہ کلمہ کفر بولنا خود کفر ، اگرچہ دل میں اس پر اعتقاد نہ رکھتا ہو ،اور عامہ علما فرماتے ہیں کہ اس سے نہ صرف مخلوق کے آگے ،بلکہ عند ﷲبھی کافر ہوجائے گا کہ اس نے دین کو معاذ اللہ کھیل بنایا اور اس کی عظمت خیال میں نہ لایا۔امام علامہ فقیہ النفس فخر الدین اوزجندی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ خانیہ میں فرماتے ہیں:’’رجل کفر بلسانہ طائعاو قلبہ علی الایمان یکون کافراً ،ولا یکون عندﷲ مؤمنا ‘‘ ترجمہ:جس شخص نے زبان سے بخوشی کلمہ کفر کہا ،حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے، تو وہ کافر ہوجائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن نہ ہوگا۔
حاوی میں ہے:’’من کفر باللسان وقلبہ مطمئن بالایمان فھو کافرولیس بمؤمن عند ﷲ ‘‘ترجمہ: جس نے زبان سے کفر بَکا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے، تو وہ کافر ہے اور اﷲتعالیٰ کے نزدیک وہ مومن نہیں ہے۔
مجمع الانہر وجواہر الاخلاطی میں ہے، وھذا الفظ المجمع: ’’من کفر بلسانہ طائعاوقلبہ مطمئن بالایمان فھو کافر ولاینفعہ مافی قلبہ ،لانّ الکافر یعرف بما ینطق بہ بالکفر فاذا نطق بالکفر کان کافرا عندنا و عندﷲ تعالی ‘‘ترجمہ: جس نے بخوشی زبان سے کفر بَکا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے، تو وہ کافر ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے، وہ اس کو نفع نہ دے گا، کیونکہ کافر تو منہ سے بولے ہوئے کفر سے پہچانا جاتا ہے، جب اس نے زبان سے کفر بول دیا ،تو وہ ہمارے نزدیک اور اﷲ تعالی کے نزدیک کافر ہوگیا۔“(فتاوی رضویہ ،جلد27،صفحہ125،126 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
زید کو چاہئے کہ وہ اللہ عزوجل کی رحمت پہ بھروسہ رکھے ،دین اسلام کو ہرگز ہرگز نہ چھوڑے ،نماز ،روزہ وغیرہ فرائضِ اسلام کی پابندی کرے اور کام کی تلاش میں کوشش کرتا رہے ، اور اللہ عزوجل پر توکل کرے کہ رزق تو اسی نے عطافرمانا ہے اور وہ اپنے ڈرنے والے بندوں کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا ،جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ﴿۲﴾ وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا﴾ترجمہ کنز الایمان :’’اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا ،اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، تو وہ اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے ۔‘‘(پارہ 28،سورۃ الطلاق ،آیت 2 ، 3)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم