کیا ہنان نام رکھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہنان کا معنی ہے،درد بھری آواز سے رونے والا ،ماتم کرنے والا ،کسی کی یاد میں رونے والا۔معنی کے لحاظ سے یہ موزوں نہیں ہے ،لہذایہ نام نہ رکھاجائے ۔
قاموس الوحید میں ہے :”ھن،ھنا،ھنینا:درد بھری آواز سے رونا،کسی کی یاد میں رونا،ماتم کرنا ۔۔۔۔الھنانۃ: رونے پیٹنے والی عورت“(قامو س الوحید، صفحہ1785، لاہور)
نئے نام رکھنے کی کوشش میں انوکھے،بے معنی یا برے معنی والے نام رکھنے کے بجائےبہتریہ ہے کہ لڑکے کانام صرف”محمد“رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں نام محمدرکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اورپکارنےکے لیےانبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام،صحابہ عظام علیہم الرضوان، اورنیک لوگوں کے ناموں میں سے کسی کے نام پر بچے کا نام رکھا جائے۔
کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)
ابو داود شریف کی حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تسموا بأسماء الأنبياء “ترجمہ : انبیائے کرام کے ناموں پر نام رکھیں ۔
(سنن ابو داود شریف،جلد 04،صفحہ287،مطبوعہ بیروت)
مسند الفردوس میں حدیث پاک ہے:”تسموا بخياركم“ ترجمہ: نیک ہستیوں کے نام پر نام رکھو۔(مسند الفردوس للدیلمی ،جلد02، صفحہ 58،مطبوعہ بیروت)
علامہ عبدالرؤوف مناوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”لا يسميه باسم مستكره كحرب ومرةوحزن قال صاحب القاموس في سفر السعادة : أمر الأمة بتحسين الأسماء“ترجمہ:والد اپنے بچے کا برانام نہ رکھے، جیسے حرب ،مرہ اورحزن،اور صاحب قاموس نے سفر السعادۃ میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو اچھے نام رکھنے کا حکم دیا۔(فیض القدیر شرح الجامع الغیر، جلد03،صفحہ 394،مطبوعہ مصر)
مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃاللہ علیہ مرأۃ المناجیح میں فرماتے ہیں:”بے معنی یا برے معنی والے نام ممنوع ہیں ۔“
(مرأۃالمناجیح،جلد06،صفحہ408،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :” التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل“ترجمہ : ایسانام رکھنا جس کا تذکرہ اللہ پاک نے اپنے بندوں میں نہ کیاہو ،اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکرکیا ہواور مسلمانوں میں مستعمل بھی نہ ہوتو علماء نے ایسانام رکھنےکےمتعلق کلام کیاہےاور بہتریہ ہےکہ ایسا نام رکھنا جائے۔(فتاویٰ ھندیہ،جلد05،صفحہ365،مطبوعہ :پشاور)
نوٹ: ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’نام رکھنے کے احکام‘‘کا مطالعہ کیجئے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
ابو القاسم کنیت رکھنا کیسا ؟
(دعوت اسلامی)