جڑانوالہ کے واقعہ میں کفار سے کی جانے والی ہمدردیوں اور حضور علیہ السلام کی طرف منسوب ایک خط کی شرعی حیثیت
سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ جب بھی کوئی غیر مسلم گروہ ملک میں گستاخی کرتا ہے اوراس کے ردِ عمل میں مسلمان احتجاج وغیرہ کرتے ہیں تو کئی سیاسی لیڈر،اینکرز اور مولوی حضرات میڈیا پر بیٹھ کر غیر مسلموں کے حقوق بیان کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو بھی مسلمان جیسے حقوق حاصل ہیں۔یہ حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
” من اٰذی ذمیا فانا خصمہ ومن کنت خصمہ خصمتہ یوم القٰیمۃ“
ترجمہ:جس نے کسی ذمی کافر کو ستایا تو میں اس سے جھگڑا کروں گا اور جس سے میں جھگڑا کروں تو قیامت کے دن جھگڑا کرنے میں غالب آؤں گا۔ (تاریخ بغداد ،جلد8،صفحہ370، دارالکتاب العربی ،بیروت )
آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ کیا موجودہ دور کے غیر مسلموں کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں؟نیز کیا مسلمان لیڈروں کا غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بنانا ان کو بڑے عہدوں پر تعینات کرنا شرعا جائز ہے؟ کیا غیر مسلموں کو حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے پر کوئی سزاشریعت نہیں دیتی؟
ایک خط کے متعلق بھی شرعی راہنمائی ارشادفرمائیں جو کہا جاتا ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر لکھا گیا تھا۔ کئی اینکرز میڈیا پر بیٹھ کر وہ خط حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے پڑھ کرسناتے ہیں اور جاوید چوہدری نے اس خط کو اخبارات میں شائع کیا ہے ،جس میں عیسائیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ وہ خط پیش خدمت ہے:
” یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے جنہیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمائندہ بنا کر بھیجا گیاتاکہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو، بے شک اللہ قادر مطلق اور دانا ہے، یہ خط اسلام میں داخل ہونے والوں کیلئے ہے،یہ معاہدہ ہمارے اوردورو نزدیک،عربی اور عجمی، شناسا اور اجنبی، عیسائیوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے درمیان ہے۔ یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا،وہ کفر کرے گا۔وہ اس حکم سے روگردانی کا راستہ اختیار کرے گا،معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خدا اور اس کے حکم کا نافرمان ہو گا، اس (خط) حکم کی نافرمانی کرنے والا بادشاہ یا عام آدمی خدا کے قہر کا حق دار ہوگا،جب کبھی عیسائی عبادت گزار اور راہب ایک جگہ جمع ہوں، چاہے وہ کوئی پہاڑ ہو یا وادی، غار ہو یا کھلا میدان،کلیساء ہو یا گھر میں تعمیر شدہ عبادت گاہ ہو تو بے شک ہم (مسلمان) ان کی حفاظت کیلئے ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے، میں،میرے دوست اور میرے پیروکار ان لوگوں کی جائیدادوں اور ان کی رسوم کی حفاظت کریں گے،یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں، ان پر ہر طرح کا جزیہ ساقط ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں، انہیں کسی طرح مجبور، خوفزدہ، پریشان یا دباؤ میں نہیں لایا جائے گا، ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں،ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں،کسی کو حق نہیں یہ ان کو لوٹے، ان کی عبادت گاہوں اور کلیساؤں کو تباہ کرے اور ان (عمارتوں) میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے، جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا، ان کے قاضی،راہب اور عبادت گاہوں کے رکھوالوں پر بھی جزیہ نہیں ہے، ان سے کسی قسم کا جرمانہ یا ناجائز ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔۔۔۔ ان کے کلیساؤں کا احترام ہو گا،ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اور انھیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاس داری کرے۔“
کیا یہ خط واقعی حضور علیہ السلام سے ثابت ہے؟اوراس میں جو باتیں لکھی ہیں کیا وہ شرعی اعتبار سے درست ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
دنیا کے لیے دین بیچنے والا دور
ہم ایسے پُرفتن دور میں رہ رہے ہیں جہاں دینِ اسلام اور اسلامی قوانین کو مسلمانوں نے اپنے ذاتی مفادات و جہالت میں پس پشت ڈال دیا ہے ،ہمارے موجودہ حالات کی عکاسی کنزالعمال کی ایک طویل حدیث کے خلاصہ سے یوں ہورہی ہے
” عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من اقتراب الساعۃ إذا رأیتم الناس أضاعوا الصلاۃ، وأضاعوا الأمانۃ، واستحلوا الکبائر، وأکلوا الربا، وأخذوا الرشی، واتبعوا الہوی، وباعوا الدین بالدنیا، وائتمن الخائن، وخون الأمین ، وأمراء فجرۃ، ووزراء کذبۃ، وأمناء خونۃ، وعرفاء ظلمۃ، ، وصارت الإمارات مواریث، ورکن علماؤکم إلی ولاتکم فأحلوا لہم الحرام وحرموا علیہم الحلال وأفتوہم بما یشتہون،وولیت أمورکم السفہاء “
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت قریب ہوگی جب تم دیکھو کہ لوگ نمازوں اور امانت کو ضائع کرتے ہیں،کبیرہ گناہوں کو حلال ٹھہراتے ہیں، سود کھاتے ہیں،رشوت لیتے ہیں، خواہشات کی پیروی کرتے ہیں،دین کو دنیا کے بدلے بیچتے ہیں ۔ خائن کو امانت دار اور امین کو خیانت کرنے والا سمجھا جاتا ہے ۔امیر لوگ سرعام گناہ کرنے والے،وزیر جھوٹ بولنے والے،سرکاری عہدیدار ظلم کرنے والے اور عہدے میراث ہوجائیں ۔ تمہارے علماء تمہارے حکمرانوں کی طرف اس قدر مائل ہوجائیں کہ ان کی وجہ سے حلا ل کو حرام اور حرام کوحلال ٹھہرا ئیں اور ان کے من پسند فتوے دیں اور بے وقوف لوگ تمہارے کاموں کے ذمہ دار بن جائیں۔(کنز العمال،کتاب القیامۃ،قسم الاول،حرف قاف،الاشراط الصغریٰ ،جلد14،صفحہ669،حدیث39639، مؤسسة الرسالة،بيروت)
یہ ہمارے لیڈروں ،افسروں اور اینکرز لوگوں کا ذاتی مفاد یا جہالت ہی ہے کہ ان کو حرمت قرآن وناموس رسالت کی اتنی پرواہ نہیں جتنی کافروں کے حقوق کی فکر ہے اورکفار کے پاس جاکر ان کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے اور میڈیا پر بیٹھ کر کفار کے حقوق اس طرح بیان کررہے ہیں جیسے ان کا مقام و مرتبہ مسلمانوں کے برابر ہے۔اگر کفار و مسلم سب برابر ہیں تو پھر انبیاء علیہم السلام بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا کیا مقصد ہوا ۔
پہلے قران کی بے حرمتی پر احتجاج ہونا چاہیے تھا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تمام احباب پہلے بھرپور طریقے سے قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کرتے اس کے بعد جو گرجوں پر حملے ہوئے اس کے بارے میں محتاط جملے بولتے ہوئے مذمت کرتے ،لیکن ایسا کرتے تو انگریز ان سے خوش نہ ہوتے اس لیے ان لوگوں نے یہ گوارہ ہی نہیں کیا کہ پہلے ان لوگوں کی مذمت کرتے جنہوں نے قرآن کی بے ادبی کرنےکا سنگین جرم کیا ہے۔
ذمیوں کے حقوق موجودہ حربی کفار پر منطبق کرنا
سیاسی لیڈروں،حکومتی افسران،اینکرز وغیرہ اور ان کے ساتھ جو بعض مولوی لوگوں نے کفار کےحقوق بیان کیے ہیں یہ سب بالکل غلط اورقرآن و حدیث کے مخالف ہیں ۔ جوحقوق موجودہ کفار کے بیان ہوئے یہ ذمی کفار کے تھے لیکن ان لوگوں نے یہ موجودہ حربی کفار پر منطبق کیے ہیں ۔
ذمی کی تعریف
ذمی وہ کافر ہوتا ہے جو اسلامی ملک میں ٹیکس دے کر رہے اور یہ وہ ٹیکس نہیں جو ہم سب دیتے ہیں بلکہ یہ خاص کفار سے لیے جانے والا ٹیکس ہے جو وہ کفر کی حالت میں مسلمانوں کے ملک میں رہنے پر دیں جبکہ فی زمانہ کسی بھی ملک میں یہ ٹیکس رائج نہیں ہے اس لیے ہمارے اکابرین نے واضح اپنے فتاوی میں موجودہ کفار کو حربی قرار دیا ہے اور حربی کفار کے وہ حقوق نہیں جو ذمی کفار کے ہوتے ہیں۔بغیر ٹیکس دیے کوئی ذمی نہیں ہوسکتا۔
ذمی کے حقوق اور ان کی حد
نیز جوذمی کفار بھی ہوتے ہیں ان کے اس قدر حقوق نہیں جومیڈیا پر بیان ہورہے ہوتے ہیں ،بس اتنا ہے کہ ان کے جان و مال کا تحفظ ہوگا ،ایسا نہیں کہ ان کو عزت وتعظیم دی جائے گی اور بڑے بڑے اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے گایا ان کے لیے عالیشان قسم کے عبادت خانے بنائے جائیں گے ۔بلکہ کتب میں صراحت ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح رہائش و لباس وغیرہ نہیں رکھیں گے کہ لوگوں کو ان کفار کے مسلمان ہونے کا شبہ ہو۔ کفار کے لیے عبادت خانے بنانا یا اپنی مساجد میں بلواکر ان کو اپنے مذہب کے مطابق افعال کرنے کی اجازت دینا کفر پر رضا ہے جو کہ کفر ہے۔ اسلام کفر کو مٹانے آیا ہے نہ کہ اسے عام کرنے کے لیے ۔ نیز اگر کوئی ذمی بھی حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرے چاہے وہ عورت ہی کیوں نہ ہو اسے حاکم اسلام قتل کرے گا۔
باقی جو سوال میں حضور علیہ السلام کی طرف منسوب خط پیش کیا گیا ہے یہ جھوٹا خط ہے جس کے جھوٹے ہونے کا عقلی و نقلی رد اس فتویٰ میں موجود ہے ۔جزیہ کا ثبوت قرآن و احادیث سے ہے اورحضور علیہ السلام نے اپنے دور مبارک میں عیسائیوں سے جزیہ لیا ہے۔نیز صحابہ کرام علیہم الرضوان کے پاکیزہ دور میں بھی کفار سے جزیہ لینا روایتوں سے ثابت ہے۔
شرعی احکام میں تحریف
لہذا موجودہ کافروں کے وہ حقوق ثابت کرنا جو ذمیوں کے متعلق ہیں یہ شرعی احکامات کی تحریف ہے۔ کفار ہمارے ملک میں رہیں ان کوقتل کرنے یا ان کی عبادت خانوں گرانے اور ملک میں فساد پھیلانے کا تو کوئی عالم دین نہیں کہتا لیکن اپنی سیاست چمکانے اور ذاتی مفادات کے لیے قرآن وحدیث میں ہیر پھیر کی قطعاً اجازت نہیں ۔
ذمی،مستامن اور حربی کی تعریف
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:
”ذمی اس کافر کو کہتے ہیں جس کے جان و مال کی حفاظت کا بادشاہ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذمہ لیا ہو۔
اور حربی اس کافر کو کہتے ہیں جس پر نہ بادشاہ اسلام کا ذمہ ہے اور نہ امان۔
اور مستامن ۔اس کافر کو کہتے ہیں جسے بادشاہ اسلام نے امان دی ہو ۔(اور یہ امان مستقل نہیں ہوتی بلکہ ایک سال سے کم ہوتی ہے۔)“(فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 510 مطبوعہ شبیر برادرز)
ذمی کے لیے جزیہ لازم ہے
دررالحکام میں ہے”ولا يجوز إبقاء الكافر على الكفر إلا مع الجزية أو الرق “ترجمہ:کافر کا کفر پر قائم رہ کر (دارالاسلام میں رہنا جائز نہیں)سوائے جزیہ یا غلامی کے۔(درالحکام شرح غررالاحکام،جلد1،صفحہ301، دار إحياء الكتب العربية)
ذمیوں سے ٹیکس زبردستی لیا جائےگا
اللباب میں ہے
” فتؤخذ منه الجزية جبراً إذا امتنع من أداء الجزية “
ترجمہ: کافر سے زبردستی جزیہ لیا جائے گا اگر وہ جزیہ نہ دے۔(اللباب في شرح الكتاب،جلد4،صفحہ148،المكتبة العلمية، بيروت)
ذمی ذلت کے طور پر ٹیکس دے گا نہ کہ احسان کرتے ہوئے
البحرالرائق میں ہے
”صرح في الهداية بأنها لا تقبل من الذمي لو بعثها على يد نائبه في أصح الروايات بل يكلف أن يأتي بنفسه فيعطي قائما والقابض منه قاعدا وفي رواية يأخذ بتلبيبه ويهزه هزا ويقول أعط الجزية يا ذمي اهـ.أو يقول يا يهودي أو يا نصراني أو يا عدو الله كما في غاية البيان ولا يقال له يا كافر ويأثم القائل إن آذاه به كما في القنية “
ترجمہ:ہدایہ میں صراحت ہے کہ ذمی کا جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا اگر وہ اپنے کسی نائب کے ہاتھ جزیہ بھیجے زیادہ صحیح روایات کے مطابق بلکہ اس کو پابندکیا جائے گا کہ وہ خود جزیہ دینے آئے اور وہ کھڑے ہوکر (بطور ذلت)جزیہ دے اور لینے والا بیٹھا ہو اور ایک روایت میں ہے کہ اس سے جزیہ لیتے ہوئے گریبان پکڑ کر ہلائے اور کہے کہ اے ذمی ! جزیہ دے یا کہے اے یہودی! یا اے عیسائی! یا اے اللہ کے دشمن! جیسا کہ غایۃ البیان میں ہے اور ذمی کو یہ نہ کہا جائے اے کافر! اور کہنے والا گناہگار ہوگا اگر ذمی کو اس پر اذیت ہو جیسا کہ قنیہ میں ہے۔ (البحرالرائق،جلد5،صفحہ121، دار الكتاب الإسلامي)
ذمیوں کے لیے نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنا جائز نہیں
اللباب میں ہے
” ولا يجوز إحداث بيعةٍ ولا كنيسةٍ في دار الإسلام، وإذا انهدمت الكنائس والبيع القديمة أعادوها “
ترجمہ:دارالاسلام میں نیا گرجا یا بیعہ(یہودیوں کی عبادت گاہ) بناناجائز نہیں ہے اور اگر(ذمیوں کی ) پرانی عبادت گاہ گر جائے تو وہ اسے دوبارہ (اسی پرانی حالت پر) تعمیرکریں گے۔ (اللباب في شرح الكتاب،جلد4،صفحہ146،المكتبة العلمية، بيروت)
ردالمحتار میں ہے
” لا يجوز إحداث كنيسة في القرى ومن أفتى بالجواز فهو مخطئ ويحجر عليه وقد نقل الشرنبلالي في رسالته عن الإمام القرافي أنه أفتى بأنه لا يعاد ما انهدم من الكنائس، وأن من ساعد على ذلك فهو راض بالكفر والرضا بالكفر كفر اهـ. “
ترجمہ:نیا گرجا دیہاتوں میں بناناجائز نہیں ہے اور جن لوگوں نے نئے گرجے بنانے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے وہ خطاکار ہیں ایسے مفتیوں کو فتوی نویسی سے روکا جائے گا ۔ علامہ شرنبلالی سے منقول ہے کہ ان کے رسالہ میں امام قرافی سے مروی ہے کہ جو گرجے گر جائیں ان کو دوبارہ نہیں بنایا جائے گا ،جس نے ایسی کوشش کی وہ کفر سے راضی ہوا اور کفر سے رضا کفر ہے۔(ردالمحتار،جلد4،صفحہ205،دارالفکر،بیروت)
کفار کی تعظیم کرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ
البحرالرائق میں ہے
”قال الطرسوسي إن قام تعظيما لذاته وما هو عليه كفر لأن الرضا بالكفر كفر فكيف يتعظم الكفر “
ترجمہ:علامہ طرسوسی نے فرمایا کہ اگر کوئی ذمی کی ذات یا جس حالت پر وہ ہے اس کی تعظیم میں کھڑا ہو تو یہ کفر ہے کہ کفر پر رضا کفر ہے تو کفر کی تعظیم کیسے کی جائے گی۔(البحرالرائق،جلد5،صفحہ124، دار الكتاب الإسلامی)
کفار کو اسلامی سلطنت میں اہم عہدے دینا
تفسیر ابن کثیر میں ہے
”قیل لعمر بن الخطاب (رضي الله عنه): إن ههنا غلاماً من أهل الحیرة حفِظ کاتب، فلوا اتخذته کاتباً! فقال: قد اتخذت إذاً بطانةً من دون المؤمنین“
ترجمہ:حضرت فاروق اعظم سے کہا گیا کہ یہاں حیرہ کا رہنے والا ایک منشی ہے جو کہ اس فن کو خوب جاننے والا ہے، آپ اس کو اپنے ہاں منشی رکھوائیں۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: اس (غیر مسلم) کو منشی رکھنے سے قرآن کی (مندرجہ بالا) آیت کی مخالفت لازم آئے گی۔ اور اس وقت گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلم کو اپنا راز دان بناؤں گا۔(تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 234 مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ)
درمختارمیں ہے
” یمنع من استکتاب ومباشرۃ یکون بھا معظما عند المسلمین وتمامہ فی الفتح وفی الحاوی ینبغی ان یلازم الصغار بینہ وبین المسلم، فی کل شیئ وعلیہ فیمنع من القعود حال قیام المسلم عندہ بحر، ویحرم تعظیمہ“
یعنی ذمی کافر کو ایسا عہدہ دیناجس میں براہ راست وہ خود کام کرے جو مسلمانوں کے نزدیک عظمت والا ہو جائز نہیں، اس کا پوار بیان فتح القدیر میں ہے۔ حاوی میں ہے وہ مسلمان کے ساتھ ہر معاملہ میں دبا ہوا ذلیل رہے تو جب تک ا س کے پاس کوئی مسلمان کھڑا ہواُسے بیٹھنے نہ دیں گے، یہ بحرالرائق میں ہے، اور اس کی تعظیم حرام ہے۔ ( الدرالمختار، فصل فی الجزیۃ،صفحہ342، دار الكتب العلمية،بیروت)
تفسیر قرطبی میں ہے
”وقد انقلبت الأحوال في هذه الأزمان باتخاذ أهل الکتاب کتبةً وأمناء، وتسودوا بذلک عند جهلة الأغنیاء من الولاة والأمراء“
یعنی اِس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو محرراور امین بنالیا گیا، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے۔(تفسیر قرطبی جلد 2 صفحہ 345 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور)
ذمی اگر حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرے
ردالمحتار میں ہے
” (قوله وسب النبي صلى الله عليه وسلم ) أي إذا أعلن بشتمه أو اعتاده قتل، ولو امرأة وبه يفتى اليوم ملخصا “
ترجمہ:ذمی نے اگر اعلانیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی یا باربار گستاخی کرتا ہو تو اسے قتل کیا جائے گا اگرچہ وہ عورت ہو اور آج کے دور میں اسی پر فتوی دیا جاتا ہے۔(ردالمحتار،جلد4،صفحہ213،دارالفکر،بیروت)
موجودہ دور کے کفار ذمی نہ ہونے پر اکابرین کے ارشادات
تفسیرات احمدیہ میں رئیس الفقہاء حضرت ملا جیون رحمتہ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں
” ان ھم الا حربی وما یعقلھا الا العالمون “
ترجمہ: موجودہ کفار صرف حربی ہیں اور اس مسئلہ کو سوائے علماء کے کوئی نہیں جانتا۔(تفسیرات احمدیہ صفحہ 300 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
فتویٰ رضویہ میں ہے :
”ہندوستان کے کافر ذمی نہیں، ذمی وہ کافر ہے کہ سلطنتِ اسلام میں مطیع الاسلام ہوکر رہے اور جزیہ دینا قبول کرے، بیع وشراءلین دین کہ جائز ہو ہر کافر اصلی سے جائز ہے اگرچہ ذمی نہ ہو۔“(فتویٰ رضویہ ، جلد 14، صفحہ133، رضا فائونڈیشن ،لاہور)
بہار شریعت میں ہے :
”ہندوستان اگرچہ دارالاسلام ہے اس کو دارالحرب کہنا صحیح نہیں ، مگر یہاں کے کفار یقینا نہ ذمی ہیں ، نہ مستامن کیونکہ ذمی یا مستامن کے لیے بادشاہ اسلام کا ذمہ کرنا اور امن دینا ضروری ہے، لہٰذا ان کفار کے اموال عقود فاسدہ کے ذریعہ حاصل کیے جاسکتے ہیں جبکہ بد عہدی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ۔ عقد فاسد کے ذریعہ کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں۔ یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر کافر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو ۔“( بہار شریعت جلد 2 حصہ 11 صفحہ 153 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاوی امجدیہ میں ہے:
”جب تک اسلامی سلطنت تھی اس وقت تک بے شک ذمی تھے۔ جب سلطنت گئی ،اس کے ساتھ ساتھ عہد وذمہ بھی رخصت ہوا۔ ان کو ذمی کہنا ایسا ہی ہوگا کہ اندھے کو آنکھوں والا کہا جائے۔ مستامن بھی نہیں کہ یہاں سکونت پذیر ہیں۔ اور مستامن کے لیے ایک محدود زمانہ تک کی اقامت کی اجازت ملتی ہے۔ “(فتاوی امجدیہ،جلد3،صفحہ317،مکتبہ رضویہ،کراچی)
فتاوی مصطفویہ میں ہے:
”جزیہ عقوبت علی الکفر ہے ،کفر پر رہتے ہوئے دارالاسلام میں رہنے پر ہے،قتل سے چھٹکارے کا بدلہ ہے کہ یا اسلام لاؤ یا قتل کیے جاؤگے یا ذلت سے رہو کہ ذلت کے ساتھ حاضر ہوکر جزیہ حاضر کرو جو ہر کافر پر واجب ہے۔“(فتاوی مصطفویہ،صفحہ438،شبیر برادرز،لاہور)
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:
”کفار کی تین قسمیں ہیں:1ذمی2مستامن اور حربی ۔ذمی اس کافر کوکہتے ہیں جس کے جان و مال کی حفاظت کا بادشاہ اسلام نے جزیہ کے بدلےذمہ لیا ہو۔۔۔۔۔۔ جب زمانۂ عالمگیر کے زمانے کے کفار حربی ہیں تو اس زمانے کے کفار بدرجہ اولی حربی ہیں۔“(فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ ۵۰۱ مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
فتاوی بریلی میں ہے:
”پاکستان دارالاسلام ضرور ہے مگر وہاں کے کفار حربی ہیں ذمی نہیں، اس لیے کہ ذمی ہونے کی شرائط مفقود ہیں ،نہ وہ جزیہ دیتے ہیں اور نہ ان پر کوئی مذہبی پابندی ہے۔ پاکستان میں جس طرح مسلمانوں کو مذہبی آزادی ہے کافروں کے لیے بھی ویسے ہی مذہبی آزادی ہے۔۔۔۔ ان کی عیادت کرنا بھی ناجائز کہ کسی کی عیادت ایک طرح کی اس کی تعظیم و تکریم ہے اور کفار لائق تعظیم و تکریم نہیں بلکہ لائق اہانت ہیں۔“(فتاوی بریلی،صفحہ353،شبیر بردارز،لاہور)
حضور علیہ السلام کی طرف منسوب خط کے جعلی ہونے کے ثبوت
کفار سے جہاد اور جزیہ لینے کا حکم اللہ عزوجل نے قرآن میں دیا ہے چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا
” قٰتِلُوا الَّذِیۡنَ لَایُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَ لَایُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ وَلَایَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوۡنَ “
ترجمہ: لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیااللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر ۔(القرآن الکریم ۹/ ۲۹)
اس آیت میں واضح اہل کتاب سمیت تمام کفار سے جہاد اور جزیہ کا ذکر ہے۔تفسیر خازن میں ہے
” قال مجاهد: نزلت الآية حين أمر النبي صلى الله عليه وسلم بقتال الروم فغزا بعد نزولها غزوة تبوك، وقال الكلبي: نزلت في قريظة والنضير من اليهود فصالحهم فكانت أول جزية أصابها أهل الإسلام وأول ذل أصاب أهل الكتاب بأيدي المسلمين “
ترجمہ: امام مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔(تفسیر الخازن،جلد2،صفحہ349، دار الكتب العلمية،بيروت)
جب قرآن میں جزیہ کا حکم موجود ہے اور حضور علیہ السلام نے یہود سے جزیہ لیا ہے تو پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ حضور علیہ السلام عیسائیوں یا یہودیوں سے جزیہ معاف کرنے کا عہد کرلیں؟ جزیہ والی آیت خیبر کی فتح کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر خیبر کے وقت جزیہ ساقط ہونے کا ذکر کہاں سے آگیا؟اس خط کے جھوٹا ہونے کی ایک وجہ اس کے اندر مضمون کی کمزوری بھی ہے کہ اس میں لکھا ہے” جو اس کی خلاف ورزی کرے گا،وہ کفر کرے گا۔“اب بدیہی سی بات ہے کہ ایک وعدے کی خلاف ورزی کرنا کفر کیسے ہوگیا؟نیز کثیر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام نے اہل کتاب پر جزیہ کو نافذ کیا بلکہ اہل نجران کے عیسائیوں نے جزیہ قبول کیا ۔ اگر یہ خط والامعاہدہ صحیح تھا تو خلفائے راشدین کے زمانے میں سامنے کیوں نہیں آیا اور مسلم حکمرانوں نے یہود ونصاریٰ سے جزیہ کیوں لیا؟
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
” عن الحسن قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أهل اليمن: من صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا وأكل ذبيحتنا فذلكم المسلم , له ذمة الله وذمة رسول الله صلى الله عليه وسلم , ومن أبى فعليه الجزية “
ترجمہ: حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل یمن کی طرف لکھ کر بھیجا کہ جو ہماری طرح نماز پڑھے،ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلم ہیں اور ان کا ذمہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے اور جو اس سے اعراض کرے اس پر جزیہ ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد6،صفحہ428، مكتبة الرشد ،الرياض)
مصنف عبد الرزاق میں ہے
” أخبرنا ابن جريج قال: كان في كتاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أهل اليمن: «ومن كره الإسلام من يهودي ونصراني، فإنه لا يحول عن دينه، وعليه الجزية على كل حالم “
ترجمہ: ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہ یمن کی طرف جو حضور علیہ السلام نے تحریر بھیجی اس میں لکھا تھا کہ جو یہودی و عیسائی اسلام قبول نہ کرے تو اسے اس کے دین سے نہیں پھیرا جائے گا اور ہر بالغ پر جزیہ ہوگا۔(مصنف عبد الرزاق،جلد6،صفحہ86،المكتب الاسلامی، بيروت)
امام بخاری عیسائیوں کے وفد ِ نجران کا تذکرہ کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:
”قَالاَ: إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا، وَلاَ تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا. فَقَالَ «لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ»، فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الجَرَّاحِ» فَلَمَّا قَامَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ»“
ترجمہ:(وفدِ نجران کے دو عیسائی سرداروں نے مباہلہ سے انکار کرنے کے بعد ہار مان کر معاہد کرتے ہوئے کہا)ہم آپ علیہ السلام کو وہ(جزیہ) دیں گے جو آپ نے تقاضا کیا ہے،آپ ہمارے ساتھ ایسا شخص بھیجیں جو بہت امین ہو،آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بہت ہی امین شخص کو تمھارے ساتھ بھیجوں گا۔ صحابہ کرام اس فضیلت کو حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگے۔ نبی کریم نے فرمایا اے ابو عبیدہ کھڑے ہو جاؤ۔ جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔(صحیح البخاری،جلد5،صفحہ171،دارطوق النجاۃ،مصر)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
” عن الشعبي , قال: لما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يلاعن أهل نجران قبلوا الجزية أن يعطوها “
ترجمہ: امام شعبی سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساتھ مباہلہ کرنے کاارادہ کیا تو انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد7،صفحہ426، مكتبة الرشد ، الرياض)
ابوداؤد شریف کی حدیث میں صراحت ہے کہ عیسائیوں سے جزیہ میں کیا لینا طے ہوا تھا
” عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَيْ حُلَّةٍ، النِّصْفُ فِي صَفَرٍ، وَالْبَقِيَّةُ فِي رَجَبٍ، يُؤَدُّونَهَا إِلَى الْمُسْلِمِينَ، وَعَوَرِ ثَلَاثِينَ دِرْعًا، وَثَلَاثِينَ فَرَسًا، وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا، وَثَلَاثِينَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلَاحِ، يَغْزُونَ بِهَا، وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَهَا حَتَّى يَرُدُّوهَا عَلَيْهِمْ، إِنْ كَانَ بِالْيَمَنِ كَيْدٌ أَوْ غَدْرَةٌ عَلَى أَنْ لَا تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلَا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلَا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا، أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا» “
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں، اور باقی ماہ رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور (ضرورت پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریۃً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ (سنن ابی داؤد،جلد3،صفحہ167، المكتبة العصريہ،بيروت)
ان تمام احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام نے اپنے دور مبارک میں جزیہ نافذ کیا اور یہود و نصاریٰ کو جزیہ سے بری نہیں فرمایا۔لہذا آجکل جو خط میڈیا پر وائرل ہورہا ہے یہ خط جعلی ہے۔ان اینکرز ولیڈر حضرات کو اتنا بڑا جھوٹ حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے سے توبہ کرنی چاہیے۔ اس خط کا جعلی ہونا کئی اوراعتبار سے بھی ثابت ہے جیسے معاہدے کے نسخوں میں فرق اور جن سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ معاہدہ لکھوایا ان ناموں میں فرق اور جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس معاہدے کی گواہی میں شریک ہونے کا ذکر ہے ان کے زمانہ اسلام میں فرق ہی اس معاہدے کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ۔
سب سے پہلے امام خطیب بغدادی کے زمانے میں یہ معاہدہ بغداد کے یہودیوں نے سازش کرتے ہوئے پیش کیا تھا حاکم وقت کو جزیہ سے بچنے کے لیے ، پھر بعد کے عیسائیوں نے اس کو پیش کرنا شروع کردیا یہی وجہ ہے کہ نسخوں میں اختلاف فاحش ہے۔اس کے لکھنے والوں میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے چوتھی ہجری میں لکھا حضور صلی الله علیہ وسلم کے فرمانے سے اور دوسرے نسخہ میں ہے کہ دوسری ہجری میں لکھا اور تیسرے نسخہ میں ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے فرمانے سے دوسری ہجری میں لکھا ۔اب آپ خود غور فرمائیں کہ کیا دوسری یا چوتھی ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا تھا؟نہیں ، بلکہ انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا تو لہذا یہ اس معاہدے کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔
بغداد میں جو وزیراعظم تھا ، اس نے خطباء و واعظین پہ یہ شرط لگائی تھی کہ وہ کوئی بھی حدیث اس وقت تک بیان نہ کریں جب تک اس کی تصحیح امام خطیب بغدادی سے نہ کروالیں ، تو بعض یہودی یہ معاہدہ نکال کے لے آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے خط سے لکھا ہوا ہے ، تو اس وزیراعظم نے وہ معاہدہ امام خطیب بغدادی کے پاس پیش کیا کہ چیک کریں کیا یہ صحیح ہے یا غلط ؟آپ نے اس کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کے بعد فرمایا”ھذا مزور “ یہ جھوٹا معاہدہ گڑھا گیا ہے ۔تو ان سے کہا گیا کہ آپ کے پاس اس کے جھوٹے ہونے کی کیا دلیل ہے؟خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے جواب دیا
”فيه شهادة معاوية وهو أسلم عام الفتح، وفتحت خيبر سنة سبع، وفيه شهادة سعد بن معاذ، ومات يوم بني قريظة قبل فتح خيبر بسنتين“
ترجمہ:اس معاہدے میں جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گواہی کا ذکر ہے ان میں حضرت معاویہ بن ابي سفیان رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے اور انہوں نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا اور خیبر ساتویں سال فتح ہوا ( یعنی فتح مکہ سے پہلے) اور پھر اس معاہدے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی گواہی کا بھی ذکر ہے اور بنی قریظہ والے دن ( خندق والے دن) فوت ہوگئے اور یہ خیبر سے دو سال پہلے کا دن ہے ، تو وزیر اعظم نے آپ کی دلیل کو تسلیم کیا اور اس معاہدہ میں جو کچھ تھا ان احکام کو نافذ نہیں کیا یعنی اس معاہدے کو قبول نہیں کیا۔ (تاريخ الاسلام للذہبی،جلد31،صفحہ55، المكتبة التوفيقية)
اس جعلی تحریر کا رد درج ذیل علمائے کرام نے فرمایا ہے:
المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (المتوفى: 597ھ)نے
معجم الأدباء = إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب میں شهاب الدين ابو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومی الحموی (المتوفى: 626 ھ) نے
بغية الطلب في تاريخ حلب میں عمر بن احمد بن هبة الله بن ابي جرادة العقيلی، كمال الدين ابن العديم (المتوفى: 660 ھ) نے
الوافي بالوفيات میں صلاح الدين خليل بن ايبك بن عبد الله الصفدی (المتوفى: 764 ھ)نے
سير أعلام النبلاء میں شمس الدين ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان بن الذهبی(المتوفى : 748 ھ) نے
طبقات الشافعية الكبرى میں تاج الدين عبد الوهاب بن تقي الدين السبكی (المتوفى: 771 ھ) نے
البداية والنهايةمیں ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقی(المتوفى: 774 ھ)نے
سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي میں عبد الملك بن حسين بن عبد الملك العصامی المكی (المتوفى: 1111 ھ) نے
اس خط کے جعلی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر لکھا ہے:
”ان کے کلیساؤں کا احترام ہو گا ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاس داری کرے۔“
اب ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام عیسائیوں کی عبادت گاہوں کا احترام کرنے کا کیسے فرماسکتے ہیں کہ جب ان جگہوں میں شرک ہوتا ہے؟نیز جب اُس دور میں قرآن نازل ہورہا تھا اور کئی احکام کفار کے حوالے سے بدل رہے تھے اس وقت حضور علیہ السلام عیسائیوں سے قیامت تک کے لیے ایسا معاہدہ کیسے کرسکتے تھے ؟
قرآن پاک کی ایک آیت ہے جسے آیت سیف(تلوار والی آیت)بھی کہا جاتا ہے اس میں ہے:
”فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ-فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ“
ترجمہ: پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
زبدۃ الاتقان میں ہے
”قال ابن العربی: کل مافی القرآن من الصفح عن الکفار والتولی والاعراض الکف عنہم فھو منسوخ بآیۃ السیف وھی:”فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ “الآیۃ، نسخت مائۃ و اربعا و عشرین آیۃ، ثم نسخ آخرھا اولھا “
ترجمہ: ابن عربی کہتے ہیں قرآن میں جہاں بھی کفار سے درگزر کرنےاور انہیں معاف کرنے کا ذکر آیا ہے وہ سب احکام آیت سیف کے نزول سے منسوخ ہو گئے ہیں۔ آیت سیف یہ ہے : پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو۔اس آیت نے ایک سو چوبیس آیات منسوخ کی ہیں۔ پھر اسی کے آخر(فاقتلوا والے حصے) نے اس کے شروع(انسلخ الاشہر الحرم) والے حصے کو منسوخ کر دیا۔)زبدۃ الاتقان، صفحہ152، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اگر اس خط کو درست مان بھی لیں تو اس مذکورہ آیت سے وہ منسوخ ہوجائے گا۔
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
11صفر المظفر 1445ھ29اگست 2023ء