قربانی میں جانور کے حصے کتنے ہوتےہیں

سوال:اگر گائے کی قربانی میں سات حصوں کی طرح اونٹ کی قربانی میں بھی سات ہی حصے ہوتے ہیں توپھر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکی روایت کاکیامعنی ہوگاجس میں اونٹ کی قربانی میں دس حصوں کاذکرموجودہے؟
جواب:گائے کی طرح اونٹ کی قربانی میں بھی فقط سات افرادشریک ہوسکتے ہیں،اس سے زائدنہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکی روایت کے فقہائے اسلام نے متعددجوابات دیئے ہیں جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں:
(1)حضرت ابن عباس رضی للہ تعالی عنہماوالی روایت حدیث ِ جابررضی اللہ تعالی عنہ سے منسوخ ہے۔
(2)یہ روایت دوسری احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کی وجہ سے متروک ہے ۔
(3)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکی ایک روایت میں ہے کہ اونٹ سات کی طرف سے ہے یادس کی طرف سے ہے یعنی شک ہے کہ سات کی طرف سے ہے یادس کی طرف سے ہے جبکہ حدیث ِجابررضی اللہ تعالی عنہ میں یقینی طورپرفرمایاکہ اونٹ کی قربانی سات کی طرف سے ہے۔
(4)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت میں شرکت سے مرادتقسیم کاری میں شریک ہوناہے نہ کہ قربانی میں۔
چنانچہ اونٹ کی قربانی سات افرادکی طرف سے ہونے کے بارے میں صحیح مسلم، سنن ترمذی،سنن ابی داؤد،سنن نسائی اوردیگرکتبِ احادیث میں حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:واللفظ للمسلم’’قال حججنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنحرنا البعیر عن سبعۃ، والبقرۃ عن سبعۃ‘‘
ترجمہ:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیاپس ہم نے اونٹ کوسات افراداورگائے کو سات افرادکی طرف سے ذبح کیا۔
(صحیح مسلم ،کتاب الحج ،باب جواز الاشتراک فی الھدی،ج 1،ص424 )
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہماکی روایت کے جوابات کے بارے میں علامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں:
’’انہ منسوخ بمامرمن قولہ البقرۃ عن سبعۃ، والجزور عن سبعۃ اھ.والاظہر أن یقال:انہ معارض بالروایۃ الصحیحۃ، وأماما ورد:فی البدنۃ سبعۃ أوعشرۃ فھوشاک،وغیرہ جازم بالسبعۃ‘‘
یعنی(1)یہ روایت اس حدیث کی بناپرمنسوخ ہے کہ گائے سات افراد کی طرف سے ہوسکتی ہے اوراونٹ بھی سات افرادکی طرف سے ہوسکتاہے۔
(2)زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت ،دوسری روایاتِ صحیحہ کے معارض ہے(لہٰذاصحیح روایت کے مقابلے میں دوسری کو چھوڑ دیا جائے گا )
(3)بہرحا ل ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ اونٹ سات یا دس کی طرف سے ہے ۔پس ان الفاظ میں شک ہے جبکہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ والی میں جزمی ویقینی طورپر فرمایاکہ اونٹ سات کی طرف سے ہی ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح،باب الاضحیۃ،ج3،ص519)
علامہ بدرالدین عینی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
’’قلت قال البیہقی حدیث أبی الزبیر عن جابر رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ فی اشتراکہم وھم مع النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فی الجزور سبعۃ أصح، أخرجہ مسلم، علی أن اشتراکہم فی العشرۃ محمول علی أنہ فی القسمۃ لا فی التضحیۃ‘‘
فرمایاکہ میں کہتا ہوں کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوحضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اوراونٹ میں سات آدمی شریک ہوئے تھے یہ حدیث پاک زیادہ صحیح ہے اوراس کوامام مسلم نے روایت کیا(لہٰذا یہی روایت قابل قبول ہے )نیز دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث پاک میں شرکت سے مراد تقسیم کاری میں شریک ہونا ہے نہ کہ قربانی میں ۔
(البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الاضحیہ،ج11،ص17)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے