ایک شخص ملازمت کرتاہے لیکن اس سے ملنے والی تنخواہ سے گزربسر نہیں ہورہا،اس کے پاس اپنے رہائشی مکان کے علاوہ ایک اورزائدمکان بھی ہے جسے اس نے خرچہ پوراکرنے کے لئے کرائے پردیاہواہے،اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس مکان کی آمدنی بچنے کی بھی امیدنہیں ہے،توکیااس مکان کی وجہ سے قربانی کرنالازم ہوگی یانہیں؟

سوال:ایک شخص ملازمت کرتاہے لیکن اس سے ملنے والی تنخواہ سے گزربسر نہیں ہورہا،اس کے پاس اپنے رہائشی مکان کے علاوہ ایک اورزائدمکان بھی ہے جسے اس نے خرچہ پوراکرنے کے لئے کرائے پردیاہواہے،اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس مکان کی آمدنی بچنے کی بھی امیدنہیں ہے،توکیااس مکان کی وجہ سے قربانی کرنالازم ہوگی یانہیں؟
جواب:اگرقربانی واجب کرنے والاکوئی اورسبب موجود نہ ہوتوصرف اس کرائے والے مکان کی وجہ سے قربانی لازم نہیں ہوگی،ہاں اگرآئندہ کبھی اس سے ملنے والی آمدنی بچ جائے اوروہ نصاب کے برابرہوئی یاحاجت اصلیہ سے زائدکسی چیز سے مل کرنصاب کے برابرپہنچ گئی،اورقربانی کی دیگرشرائط بھی پائی گئیں توقربانی لازم ہوجائے گی۔
کرائے پردئیے جانے والے مکان کے بارے میں ردالمحتارمیں ہے:
’’سئل محمد عمن لہ ارض یزرعہا او حانوت یستغلہا او دار غلتہا ثلاث آلاف ولا تکفی لنفقتہ ونفق عیالہ سنۃ؟یحل لہ اخذ الزکاۃ وان کانت قیمتہا تبلغ الوفاوعلیہ الفتوی‘‘
ترجمہ:امام محمدعلیہ الرحمہ سے سوال کیاگیاکہ جس کے پاس زمین ہے اوروہ اس میں کھیتی باڑی کرتاہے یاکرائے پردی ہوئی دکان یاگھرہے اوران کی آمدن تین ہزارروپے ہے اوریہ آمدن اسے اوراس کے اہل وعیال کے لئے کافی نہیں ہے تواس شخص کے متعلق کیاحکم ہے؟(توآپ علیہ الرحمہ نے ارشادفرمایا:)اسے زکو ۃ لیناحلال ہے اگرچہ اس جائدادکی قیمت نصاب کے برابرپہنچتی ہو،اوراسی قول پرفتوی ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،ج3،ص347)
فتاوی رضویہ میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن سے اس شخص کے متعلق سوال ہواجس کے پاس کرائے پردی ہوئی جائدادہے اوراس کی تمام آمدن خرچ ہوجاتی ہے تو اس پرزکوٰۃ، فطرہ وقربانی واجب ہے یانہیں ؟توآپ علیہ الرحمہ نے ارشادفرمایا:
’’شوہرپرصدقہ و اضحیہ بھی نہیں،اگرچہ زیورمذکوربھی اسی کی ملک ہوکہ تمام کاقرض محیط ہے،مگران علما کے نزدیک کہ ایجاب صدقہ واضحیہ میں قیمت جائداد کااعتبارکرتے ہیں،اورراجح ومفتی بہ اول ہے‘‘۔واللہ تعالی اعلم۔
(فتاوی رضویہ،ج20،ص367)
یونہی اسی طرح کے ایک اورسوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’واجب ہے،جب کہ وہ مکان تنہایااس کے اورمال سے حاجتِ اصلیہ سے زائدہو،مل کرچھپن روپے)یعنی اتنی مالیت کہ جوساڑھے باون تولے چاندی کے برابرہو(کی قیمت کوپہنچے،اگرچہ ان مکانوں کوکرائے پرچلاتاہویاخالی پڑے ہوں یاسادی زمین ہوبلکہ اگرمکانِ سکونت اتنابڑاہے کہ اس کاایک حصہ اس(شخص) کے جاڑے یعنی سردی اورگرمی دونوں کی سکونت کے لئے کافی ہواوردوسراحاجت سے زائد ہواوراس(دوسرے حصے)کی قیمت تنہایااسی قسم کے(حاجتِ اصلیہ)سے زائدمال سے مل کرنصاب تک پہنچے،جب بھی قربانی واجب ہے،اسی طرح صدقۂ فطربھی‘‘۔
(فتاوی رضویہ، ج20،ص361)

(کتاب قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی )

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے