سوال: تقدیر میں جو لکھا ہے وہی ملنا ہے ،پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اچھا کرو گے تو اچھا ملے گا؟
جواب: جواب جاننے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھئے کہ تقدیر کے مسئلے میں زیادہ غوروفکراوربحث ومباحثہ کرنابعض اوقات گمراہی بلکہ کفرکے عمیق گڑھے تک لے جاتاہے اوراس معاملہ میں زیادہ غور وفکر کرنے سے حضرت ابوبکرصدیق وعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہماجیسی عظیم شخصیات کوبھی منع فرمادیاگیاہے،لہذا ہمیں تقدیر کے بارے زیادہ غور وفکر کرنے سے بچنا چاہئے۔
البتہ تقدیر کامطلب یہ ہے کہ ہربھلائی اوربرائی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق مقدرفرمادی ہے جوبات جیسے ہونے والی تھی اور جو شخص جو کچھ کرنے والا تھااللہ تعالیٰ اسے ازل سے جانتاتھااورجانتا ہے اسی کے مطابق اس نے لکھ دیااب جولکھاہے اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کامطلب یہ ہرگزنہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لکھنے کی وجہ سے انسان ویسا ہی کرنے پر مجبور ہے بلکہ انسان جیسا کرنے والا تھاویساہی اللہ تعالیٰ نے لکھاہے مثلاً خالد کے ذمے برائی لکھی تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ خالد برائی کرے گا اگر خالدبھلائی کرنے والا ہوتا تو اس کے ذمے بھلائی ہی لکھی جاتی۔
لہذا یہ سمجھنا کہ جو تقدیر میں لکھا ہوگا وہی ملے گا اور یہ سوچ کر تدبیر کو ترک کر دینا بالکل بھی درست نہیں کہ تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل سے نوازا،انبیاء علیہم الصلاة والتسلیم کے ذریعے رہنمائی فرمائی اوراعضاء و قوت عطاکرکے ایک نوع ارادہ واختیار بھی بخشا۔ مگر کچھ کاموں کے کرنے کا حکم دیا اور کچھ سے منع فرما دیا۔ اب بندے کی مرضی کہ وہ اس عطا کردہ ارادہ و اختیار سے اپنے اعضاء کو اطاعت میں لگائے یا اِن سے ممنوع کام کروائے،جیسا ارادہ کرے گا ویسا ہی اسے اجر ملے گا۔
اوراگر کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ کر کہے کہ قسمت میں ہوگا تو خود ہی منہ میں چلاجائے گا تو ایسے شخص کو ہر ذی شعور بے وقوف سمجھے گا اور کہے گا کہ کھانا تبھی تمہارے منہ میں جائے گا جب تم خود اس کھانے کو منہ میں ڈالوگو یعنی تدبیر اختیار کرنی ہوگی ۔