نمازِ تراویح کل بیس رکعات ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ادا فرمائی،اِسی پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہےاور اسی پر دورِنبوت سے لیکرآج تک ،شرق سے لیکر غرب تک اُمّت کا عمل ہےاور ائمہ اربعہ یعنی امام اعظم ابوحنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کوئی بھی نمازِتراویح کی بیس سے کم رکعات کا قائل نہیں،بلکہ امام مالک کے دو قولوں میں سے ایک قول بیس رکعات کا ہے اور اسی قول کے موافق بیس رکعات تراویح کی روایت اپنی کتاب ”مؤطا امام مالک“میں نقل فرمائی،جبکہ دوسرا قول چھتیس(36)رکعات نمازِتراویح کا ہے،اس قول کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحِمہ اللہ کے دور میں اہل مکہ نمازِ تراویح پڑھتے ہوئے ہر ترویحہ (چاررکعات مکمل کرنے )پر کعبۃ اللہ کا طواف کرتے ہوئے سات چکر لگاتے،تو اہلِ مدینہ کعبہ سے دور ہونے کی وجہ سے طواف نہیں کر سکتے تھے ،تو انہوں نےاہلِ مکہ سے برابری کرنے کے لئے ہر طواف کے بدلے چار رکعات پڑھنا شروع کر دی،تو یوں چار طواف کے بدلے سولہ رکعات مزید پڑھتے ،تو اس وجہ سے امام مالک رَحِمہ اللہ نے بیس کے اوپر مزید سولہ رکعات پڑھنے کو جائز قرار دیا،لیکن علمائے کرام لکھتے ہیں کہ اہلِ مدینہ کے اس عمل کو صالح مولی التوامہ نے نقل کیا ہےاور صالح مولی التوامہ ضعیف راوی ہے،اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،نیز یہ بھی بیان نہیں ہے کہ اہلِ مدینہ میں وہ کون لوگ تھے؟ جو چھتیس رکعات تراویح پڑھتے تھے،نیز اہلِ مدینہ کاعمل بیس رکعات تراویح کا صراحتاً مذکور ہے اور صحابہ کرام کا بیس رکعات پر اجماع بھی منقول ہے اور امام مالک علیہ الرحمۃ نے روایت بھی بیس رکعات کی نقل کی ہے،لہذا حق اجماع کی اتباع کرنے میں ہی ہے۔
نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کا بیس رکعات نمازِ تراویح ادا کرنا۔
المعجم الاوسط،المعجم الکبیر،سنن کبری،مسندعبدبن حمید،مجمع الزوائد،مصنف ابن ابی شیبہ،التمہید،فتح الباری،شرح المؤطاللزرقانی،درایہ اورنصب الرایہ میں ہے:واللفظ للاول”عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر“ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ (المعجم الاوسط،باب من اسمہ احمد ،ج01،ص243،مطبوعہ دارالحرمین القاھرة)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح:
مؤطاامام مالک،شرح المؤطاللزرقانی،سنن کبری،شعب الایمان،کتاب الصیام للفریابی،فتح الباری،التمہید،المغنی لابن قدامہ،درایہ اورنصب الرایہ میں ہے:واللفظ للاول:”عن یزیدبن رومان انہ قال کان الناس یقومون فی زمان عمربن الخطاب فی رمضان بثلث وعشرین رکعة“ترجمہ:یزیدبن رومان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورمیں لوگ (بشمول وتر)تئیس رکعت پڑھتے تھے۔ (مؤطاامام مالک،کتاب الصلاة،باب ماجاء فی قیام رمضان ، ج 1،صفحہ98،مطبوعہ مکتبہ بشری)
سنن کبری،مصنف ابن ابی شیبہ ،مصنف عبدالرزاق میں ہے:”عن السائب بن یزیدقال کناننصرف من القیام علی عھد عمروقد دنا فروع الفجروکان القیام علی عھدعمرثلاثة وعشرین رکعة“ترجمہ:سائب بن یزیدبیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرکے دورمیں فجرکے قریب تراویح سے فارغ ہوتے تھے اورہم (بشمول وتر)تئیس رکعات پڑھتے تھے۔
(مصنف عبد الرزاق ،باب قیام رمضان،ج4،ص 261،مطبوعہ المکتب الاسلامی ، بیروت )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح:
سنن کبری،مسندابن جعد اورمعرفۃالسنن میں ہے:واللفظ للاول”عن السائب بن یزیدقال کانوایقومون علی عھدعمربن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھررمضان بعشرین رکعة قال وکانوا یقرء ون بالمئین وکانوایتوکؤن علی عصبیھم فی عھدعثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ من شدة القیام“ترجمہ:سائب بن یزیدبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورمیں صحابہ کرام رمضان کے مہینے میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اوران میں ایسی سورتیں پڑھتے تھے جن میں آیات ہوتی تھیں اورحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورمیں شدت ِ قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔
(السنن الکبری للبیھقی، ج 2 ،ص698،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح:
سنن کبری اورمصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:واللفظ للآخر”عن ابی الحسناء ان علیاامررجلایصلی بھم فی رمضان عشرین رکعة“ترجمہ:ابوالحسناءبیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کورمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھانے کاحکم دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة،کم یصلی فی رمضان من رکعة،جلد2،صفحہ163،مطبوعہ مکتبۃ الرشد ،الریاض)
سنن کبری میں ہے:”عن عبدالرحمن السلمی عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال دعاالقراء فی رمضان فامرمنھم رجلایصلی بالناس عشرین رکعة قال وکان علی رضی اللہ عنہ یوتربھم وروی ذلک من وجہ اخر عن علی“ترجمہ:حضرت عبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کوبلایااوران میں سے ایک شخص کوحکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائےاورخودحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کو وترپڑھاتے تھے۔یہ حدیث حضرت علی سے اوربھی اسانیدسے مروی ہے۔
(السنن الکبری للبیھقی، ج 2 ،ص699،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
مصنف ابن ابی شیبہ اورسنن کبری میں ہے:”وکان من اصحاب علی رضی اللہ تعالی عنہ انہ کان یؤمھم فی شھررمضان بعشرین رکعة ویوتربثلاث“ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض اصحاب سے مروی ہے کہ حضرت علی رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے اورتین رکعت وتر۔ (السنن الکبری للبیھقی، ج 2 ،ص699،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت )
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:”عن نافع بن عمرقال کان ابن ابی ملیکة یصلی بنافی رمضان عشرین رکعة“ترجمہ:نافع بن عمربیان کرتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة،کم یصلی فی رمضان من رکعة،جلد2،صفحہ163،مطبوعہ مکتبۃ الرشد ،الریاض)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:”عن ابن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینہ عشرین رکعة ویوتربثلاث“ترجمہ:ابن رفیع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ میں لوگوں کورمضان میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وترپڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة، ج2،ص163،مطبوعہ مکتبۃ الرشد ،الریاض)
امام ابوعیسی محمدبن عیسی ترمذی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”واکثراھل العلم علی ماروی عن علی وعمروغیرھمامن اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عشرین رکعة“ترجمہ:اکثراہل علم کامذہب بیس رکعت تراویح ہے جوکہ حضرت علی،حضرت عمراورنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دیگراصحاب علیہم الرضوان سے مروی ہے۔
(جامع ترمذی ،باب ماجاء فی قیام شھررمضان،ج 2 ،ص162،مطبوعہ دار الغرب الإسلامي ، بيروت)
فقہ حنفی میں بیس رکعات تراویح:
اختیارلتعلیل المختار،درمختار،فتاوی عالمگیری اوربحرالرائق میں ہے،واللفظ للدرالمختار:’’التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃالخلفاء الراشدین للرجال والنساء اجماعا۔۔۔۔وھی عشرون رکعۃ‘‘ترجمہ:تراویح خلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے مردوں اورعورتوں کے لئے بالاجماع سنتِ مؤکدہ ہے اور یہ بیس رکعتیں ہیں ۔
(الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل،ج02،ص597،مطبوعہ مکتبہ ،کوئٹہ)
مذکورہ بالاعبارت کے تحت ردالمحتارمیں ہے:’’أی:أکثرھم،لأن المواظبۃ علیھاوقعت فی أثناء خلافۃ عمررضی اللہ تعالی عنہ ،ووافقہ علی ذلک عامۃ الصحابۃ ومن بعدھم الی یومناھذابلانکیر‘‘ترجمہ:یعنی اکثرخلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے کیونکہ اس پرمواظبت حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دوران ہوئی اورسب صحابہ نے ان کی اس پرموافقت فرمائی اوران کے بعدسے آج تک کسی نے انکارنہ کیا۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مبحث:صلاۃ التراویح،ج02،ص597،مطبوعہ مکتبہ ،کوئٹہ)
تبیین الحقائق میں ہے:” والثاني في عدد ركعاتها وهي عشرون ركعة ولنا ما روى البيهقي بإسناد صحيح أنهم كانوا يقومون على عهد عمر رضي اللہ عنه بعشرين ركعة وعلى عهد عثمان وعلي مثله فصار إجماعا “دوسری بحث تراویح کی رکعات کی تعداد کے بارے میں ہے اور وہ بیس رکعات ہیں اور ہماری دلیل وہ ہے جسے امام بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا کہ صحابہ کرام حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں بیس رکعات پڑھتے تھے،اس طرح کی صورت سے اجماع ہوجاتا ہے۔
(تبیین الحقائق،ج01،ص178،مطبوعہ المطبعۃ الکبری الامیریۃ،قاہرہ )
فقہ مالکی میں بیس رکعات تراویح:
علامہ ابن رشد مالکی رَحِمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:” واختلفوا في المختار من عدد الركعات التي يقوم بها الناس في رمضان: فاختار مالك في أحد قوليه، وأبو حنيفة، والشافعي، وأحمد، وداود: القيام بعشرين ركعة سوى الوتر، وذكر ابن القاسم عن مالك أنه كان يستحسن ستا وثلاثين ركعة والوتر ثلاث“ترجمہ: ائمہ مجتہدین کا تراویح کی رکعات کے مختار عدد کے بارے میں اختلاف ہے،امام مالک نے اپنے دو قولوں میں سے ایک میں اور امام ابو حنیفہ،امام شافعی ،امام احمد اور داؤد ظاہری نے وتر کے علاوہ بیس رکعات تراویح کو اختیارفرمایا،لیکن ابن قاسم نے امام مالک سے یہ بھی نقل کیا کہ آپ چھتیس رکعات اور تین وتر کو بہتر سمجھتے تھے۔
(بدایۃ المجتہد،الباب الخامس فی قیام رمضان،ج01،ص219،مطبوعہ دارالحدیث،قاہرہ)
فقہ العبادات علی مذہب المالک میں ہے:” عددها: عشرون ركعة عدا الشفع والوتر، ثم جعلت في زمن عمر بن عبد العزيز رضي اللَّه عنه ست وثلاثون، لكن الذي عليه السلف والخلف أنها عشرون “ترجمہ:تراویح کی تعداد بیس رکعات ہیں،شفع اور وتر کے علاوہ ،پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں چھتیس رکعات پڑھی جانے لگی،لیکن جس تعداد پر سلف و خلف رہے وہ بیس رکعات تراویح ہیں۔
(فقہ العبادات علی مذہب المالک،ج01،ص195،مطبوعہ مطبعۃ الانشاء،دمشق)
چھتیس رکعات کی وجہ کے متعلق علامہ ابن قدامہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:” قال بعض أهل العلم: إنما فعل هذا أهل المدينة لأنهم أرادوا مساواة أهل مكة، فإن أهل مكة يطوفون سبعا بين كل ترويحتين، فجعل أهل المدينة مكان كل سبع أربع ركعات، وما كان عليه أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أولى وأحق أن يتبع “ترجمہ:بعض اہل ِ علم نے کہا:یہ اہلِ مدینہ نے کیا ،کیونکہ انہوں نے اہل ِ مکہ سے برابری کا ارادہ کیا اور اہلِ مکہ ہر دو ترویحوں کے درمیان سات چکر طواف کرتے تھے ،تو اہل ِ مدینہ نے ہر سات چکر طواف کی جگہ چار رکعات شروع کر دیں،لیکن جس بیس رکعات تراویح پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے صحابہ کرام رہے،تو زیادہ بہتر و احق یہی ہے کہ ان کی اتباع کی جائے۔ (المغنی لابن قدامہ،ج02،ص122،مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ)
البیان فی مذہب الامام الشافعی میں ہے:” أن أهل مكة كلما صلوا ترويحة: وهي أربع ركعات طافوا بالبيت سبعًا، فتحصل عنهم أربع طوفات، ولا بيت لأهل المدينة يطوفون به فجعل أهل المدينة مكان كل طواف ترويحة أربع ركعات فزادوا أربع ترويحات وهي ست عشرة ركعة مع التراويح وهي عشرون ركعة والوتر ثلاث ركعات “ترجمہ:اہل ِ مکہ جب ترویحہ پڑھتے جو چار رکعات ہیں،تو وہ بیت اللہ کے سات چکر لگاتے،پس انہیں چار طواف حاصل ہو جاتےاور اہلِ مدینہ کے پاس بیت اللہ نہیں تھاجس کا وہ طواف کرتے،پس اہلِ مدینہ نے ہر طواف کی جگہ ایک ترویحہ یعنی چار رکعات شروع کر دیں،انہوں نے چار ترویحہ زیادہ کردئیے اور وہ تراویح کے ساتھ سولہ رکعات تھیں،جبکہ تراویح بیس رکعات اور وتر تین رکعات تھے۔
(البیان فی مذہب الامام الشافعی،ج02،ص278،مطبوعہ دارالمنہاج،جدہ)
اس وجہ کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں: ” وقال مالك: ستة وثلاثون. وزعم أنه الأمر القديم، وتعلق بفعل أهل المدينة، فإن صالحا مولى التوأمة، قال: أدركت الناس يقومون بإحدى وأربعين ركعة، يوترون منها بخمس۔۔۔۔فأما ما رواه صالح، فإن صالحا ضعيف، ثم لا ندري من الناس الذين أخبر عنهم؟ فلعله قد أدرك جماعة من الناس يفعلون ذلك، وليس ذلك بحجة، ثم لو ثبت أن أهل المدينة كلهم فعلوه لكان ما فعله عمر، وأجمع عليه الصحابة في عصره، أولى بالاتباع۔ “ترجمہ:اور امام مالک نے فرمایا:چھتیس رکعات ہیں اورامام مالک نے اسے قدیم عمل گمان کیا اور اس عمل کو اہلِ مدینہ کے فعل سے متعلق کیا،کیونکہ صالح مولی التوامہ نے کہا :میں نے لوگوں کو اکتالیس رکعات پڑھتے ہوئے پایا،جن میں سے پانچ وتر تھے۔(علامہ ابن قدامہ جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں)بہرحال جو صالح نے روایت کیا ،توصالح ایک ضعیف راوی ہے،پھرجن کے متعلق صالح نے چھتیس رکعات پڑھنے کی خبر دی ہم نہیں جانتے کہ وہ کون لوگ تھے؟ہاں! ہو سکتاہے کہ صالح نے بعض لوگوں کو یہ عمل کرتے دیکھا ہو،لیکن یہ بعض لوگوں کا عمل دلیل نہیں ہے ،پھر بھی اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تمام اہلِ مدینہ نے یہ ایسا کیا تھا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کیا اور ان کے زمانے میں بیس رکعات پر صحابہ کا جواجماع ہوا،ضرور یہ پیروی کے زیادہ لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ،ج02،ص122،مطبوعہ مکتبۃ القاھرہ)
فقہ شافعی میں بیس رکعات تراویح:
المجموع شرح المھذب میں ہے:” مذهبنا أنها عشرون ركعة بعشر تسليمات غير الوتر وذلك خمس ترويحات والترويحة أربع ركعات بتسليمتين هذا مذهبنا وبه قال أبو حنيفة وأصحابه وأحمد وداود وغيرهم ونقله القاضي عياض عن جمهور العلماء “ترجمہ:ہمارا(شوافع)کا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعات دس سلام کے ساتھ وتر کے علاوہ ہےاور یہ پانچ ترویحہ ہیں اور ترویحہ دو سلام کے ساتھ چار رکعات کو کہتے ہیں،یہ ہمارا مذہب ہے اور اسی کے قائل امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب ،امام احمد، داؤد ظاہری اور ان کے علاوہ ہیں اورامام قاضی عیاض نے اس کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع شرح المھذب،ج04،ص32،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)
البیان فی مذہب الامام الشافعی میں ہے:”ومن السنن الرواتب: قيام شهر رمضان وهو عشرون ركعة بعشر تسليمات بعد العشاء“ترجمہ:سننِ رواتب میں سے ماہِ رمضان میں قیام کرنا ہے اور وہ دس سلام کے ساتھ عشاء کے بعد بیس رکعات تراویح پڑھنا ہے۔
(البیان فی مذہب الامام الشافعی،ج02،ص274،مطبوعہ دارالمنھاج،جدہ)
فقہِ حنبلی میں بیس رکعات تراویح:
المحرر فی الفقہ علی مذہب الامام احمد میں ہے:” وسنة التراويح عشرون ركعة “ترجمہ:بیس رکعات تراویح سنت ہے۔
(المحرر فی الفقہ علی مذہب الامام احمد،ج01،ص90،مطبوعہ مکتبۃ المعارف،ریاض )
المغنی لابنِ قدامہ میں ہے:” والمختار عند أبي عبد اللہ رحمه اللہ فيها عشرون ركعة وبهذا قال الثوري وأبو حنيفةوالشافعي ولناأن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب، وكان يصلي لهم عشرين ركعة“ترجمہ:اور ابوعبداللہ (یعنی امام احمد بن حنبل)رَحِمہ اللہ کے نزدیک تراویح بیس رکعات ہےاور اسی کے قائل امام ثوری،امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت میں لوگوں کو جمع کیا،تو آپ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔ ( المغنی لابن قدامہ،ج02،ص122،مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ)
بیس رکعات تراویح پر اتفاق و اجماع:
امام نووی شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:” اعلم أن صلاة التراويح سُنّة باتفاق العلماء، وهي عشرون ركعة “نمازِ تراویح کے مسنون ہونے پر علماء کا اتفاق ہے اور وہ بیس رکعات ہیں۔ (کتاب الاذکار،ج01،ص183،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)
علامہ قسطلانی شافعی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:”وروى مالك في الموطأ عن يزيد بن رومان قال: كان الناس يقومون في زمن عمر رضي اللہ عنه بثلاث وعشرين ۔۔۔وقد عدوا ما وقع في زمن عمر رضي اللہ عنه كالاجماع “ترجمہ:امام مالک نے موطا میں یزید بن رومان سے روایت کیا :لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں تیئس رکعات پڑھتے تھے،(جن میں سے تین وتر ہوتے)اور علماء نے جو حضرت عمر کے زمانے میں ہوا،اسے اجماع کی طرح شمار کیا۔
(إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري،ج03،ص426،مطبوعہ المطبعۃ الکبری الامیریۃ،مصر)
علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں:” وقال ابن عبد البر: وهو قول جمهور العلماء، وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء، وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة “ترجمہ:اور علامہ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ یہی(بیس رکعات تراویح)جمہور علماء کا مؤقف ہےاوراسی کے کوفی ،شافعی اوراکثر فقہاء قائل ہیں اور یہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے،اس میں کسی صحابی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری،ج11،ص127،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،بیروت)
علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”فصار اجماعا لما روی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یصلون علی عھد عمر بعشرین رکعتہ وعلی عھد عثمان وعلی“ترجمہ:پس بیس رکعات تراویح پر اجماع ہو گیا،کیونکہ امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے زمانے میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے۔
(شرح النقایۃ،ج01،ص342،مطبوعہ ایج ایم سعید کمپنی)
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:” كان الناس يقومون في زمن عمر في رمضان بثلاث وعشرين ركعة وعن علي أنه أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعةوهذا كالإجماع “ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں لوگ تئیس رکعات پڑھتے تھےاور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ماہِ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھائے اور یہ اجماع کی طرح ہے۔ ( المغنی لابن قدامہ،ج02،ص122،مطبوعہ مکتبۃ القاہرہ)
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:” فذهب جمهور الفقهاء من الحنفية والشافعية والحنابلة وبعض المالكية إلى أن التراويح عشرون ركعة۔۔۔۔ قال الكاساني: جمع عمر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان على أبي بن كعب رضي الله تعالى عنه فصلى بهم عشرين ركعة، ولم ينكر عليه أحد فيكون إجماعا منهم على ذلك وقال الدسوقي وغيره: كان عليه عمل الصحابة والتابعين وقال ابن عابدين: عليه عمل الناس شرقا وغربا“ترجمہ:جمہور فقہاء کرام یعنی احناف،شوافع،حنابلہ اور بعض مالکیہ اس طرف گئے کہ تراویح بیس رکعات ہیں،علامہ کاسانی نے فرمایا:حضرت عمر نے اصحابِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ماہِ رمضان میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت پر جمع کیا،توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بیس رکعات پڑھائیں اور اس پر کسی صحابی نے انکار نہیں کیا،پس صحابہ کرام کی طرف سے اس پر اجماع ہوا۔علامہ دسوقی وغیرہ نے فرمایا:صحابہ کرام اور تابعین کا بیس رکعات تراویح پر عمل تھا اور علامہ ابنِ عابدین شامی نے فرمایا:بیس رکعات تراویح پر شرق سے لیکر غرب تک تمام لوگوں کا عمل ہے۔
(موسوعہ فقہیہ کویتیہ،ج27،ص141،مطبوعہ دارالسلاسل،بیروت )
تحریر؛مفتی عبد الرب شاکر عطاری